Skip to content
Home » شریعت کے خلاف گناہ کا نتیجہ

شریعت کے خلاف گناہ کا نتیجہ

نہیں میں تمام احکامات کی فرمانبرداری نہیں کی

مجھے بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ خوشخبری نہیں ہے۔ دراصل یہ بہت بُری خبر ہے۔ کیونکہ اسکا مطلب ہے (اور یہ ہی مسلہ میرے ساتھ بھی ہے) کہ آپ راستباز نہیں ہیں۔ راستبازی بڑی اہم ہے کیونکہ یہ ہی اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے کی بنیاد ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ روزمرہ زندگی کے معاملات میں راستبازی ہوگی۔ (کہ نہ جھوٹ بولا جائے، نہ چوری کی جائے، نہ قتل کیا جائے، نہ بت پرستی کی جائے، اور اس طرح کے گناہ نہ کئے جایئں) اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی اور سچائی کے ساتھ عبادت کی جائے اور یہ ہمیں جنت میں لے جائے گی۔ اس لیے حضرت داود زبور شریف میں بیان کرتے ہیں کہ راستبازی جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ صرف اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں بیان ہے کہ وہ جنت میں داخل ہونگے۔

زبور 15: 1-5

1 اے خداوند تیرے خمیہ میں کون رہے گا؟

تیرے کوہ مقدس پر کون سکونت کرے گا؟

2 وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔

3 وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سنتا۔

4 وہ جس کی نظر میں رذیل آدمی حقیر ہے پر جو خدوند سے ڈرتے ہیں اُن کی عزت کرتا ہے۔ وہ جو قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اُٹھائے۔

5 وہ جو اپنا روپیہ سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھائے گا۔

تفہیم گناہ

          لیکن جب ہم (آپ اور میں) راستبازی کے کام نہیں کرتے۔ تو ہم احکام کی فرمانبرداری نہیں کر رہے ہوتے تو پھر ہم  گناہ کرتے ہیں۔ گناہ کیا ہے؟ تورات شریف کے فوراً بعد ایک آیت نے مجھے اس کو سمجھنے میں بڑی مدد دی ۔ یہ آیت اس طرح کہتی ہے۔

ان سب لوگوں میں سے سات سو چنے ہوئے بیں ہتھے جوان تھے جن میں سے ہر ایک فلاخن سے بال کے نشانہ پر بغیر خطا کئے پتھر مار سکتا تھا۔    قضاۃ 20: 16

یہ آیت بیان کرتی ہے کہ ایک فوجی وہ ہے جو فلاخن چلانے میں ماہر ہو اور اُس کا نشان کبھی خطا نہیں کھاتا ۔ تورات شریف اور پرانے عہدنامہ کو تمام انبیاء اکرام نے عبرانی میں لکھا۔ عبرانی میں لفظ “ יַחֲטִֽא ” جس کا تلفظ (pronounced Khaw-taw) جسکا ترجمہ “خطا” کیا گیا ہے۔ بالکل اسی عبرانی لفظ کا تورات شریف میں ترجمہ “گناہ” کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپر یہ یہی عبرانی لفظ “گناہ” کے طور پر استعمال ہوا۔ جب حضرت یوسف کو مصر میں غلام بنا کربیچ دیا۔ اور اُس کے آقا کی بیوی نے اُس سے بدکاری کرنے کو کہا۔ لیکن حضرت یوسف نے انکار کردیا۔ چنانچہ وہ اس سے منت کرنے لگی۔ (قرآن شریف میں بھی لکھا ہے سورۃ یوسف 12: 22-29 ) حضرت یوسف نے اُس عورت سے کہا!

           اس گھر میں مجھ سے بڑا کوئی نہیں اور اُس نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تو اس کی بیوی ہے سو بھلا میں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟                                                                                                                                                                                                                   پیدائش 39: 9

اور تورات شریف میں دس احکام کے فوراً بعد لکھا ہے۔

           موسیٰ نے لوگوں سے کہا کہ تم ڈرو مت کیونکہ خدا اس لیے آیا ہے کہ تمہارا امتحان کرےاور تم کو اُس کا خوف ہو تاکہ تم گناہ نہ کرو                خروج 20:20

ان دونوں جگہوں میں یہ ہی عبرانی لفظ “ יַחֲטִֽא ” جسکا ترجمہ “گناہ” ہے۔ یہ بالکل وہ لفظ ہے۔ جس کے بارے کہاگیا تھا۔ کہ فوجی وہ ہے جس کا نشانہ “خطا” نہیں ہوتا۔ ان آیات میں “گناہ” کا مطلب ہے۔ جب ہم لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات نمٹاتے ہیں۔ تو گناہ کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک حیرت انگیز تصویر دی ہے۔ جب ایک سپاہی فلاخن سے نشانہ لگاتا ہے۔ اور اگر وہ نشانہ خطا ہوجائے تو اُس کا مقصد ناکام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ہدف کا نشانہ بنایا ہے۔ کہ کس طرح ہم اُس کی عبادت کریں۔ اور کیسے ہم دوسروں سے رویہ رکھیں۔ “گناہ” کا مطلب نشانے کا خطا ہو جانا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے۔ یہ ہی صورت حال ہے جب ہم تمام احکامات کی پیروی نہیں کرتے اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ارادے کو اپنی زندگی میں سے (خطا) چھوڑ دیتے ہیں۔

تورات میں گناہ کا نتیجہ (موت)

          لہذا اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ہم نے پہلے حضرت آدم کی نشانی میں اس کے بارے میں ارشارہ دیکھا تھا۔ جب حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ کی (صرف ایک بار) نافرمانی کی تو اُس کو فانی بنا دیا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اب وہ وفات پائے گا۔ یہ حضرت نوح کی نشانی میں جاری رہا اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو سیلاب کے ساتھ مارا۔ اور یہ حضرت لوط کی نشانی میں جاری رہا۔ جہاں فیصلہ دوبارہ موت ہی تھا۔ حضرت ابراہیم کے بیٹے کو بھی قربانی سے مرنا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس کی جگہ مینڈھا فراہم کردیا۔ مصر میں دسویں آفت فسح پر پہلوٹھوں کی موت کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کوہ طور پر بات کی تو اس رحجان کو جاری رکھا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود دس احکام کو تختیوں پر لکھ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے درجہ ذیل احکام دیۓ۔

10 اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے پاس جا اور آج اور کل اُن کو پاک کر اور وہ اپنے کپڑے دھولیں۔ 11 اور تیسرے دن تیار رہیں کیونکہ خداوند تیسرے دن سب لوگوں کے دیکھتے دیکھتے کوہ سینا پر اُترے گا۔ 12 اور تو لوگوں کے لیے چاروں طعف حد باندھ کر اُن سے کہہ دینا کہ خبردار تم نہ تو اس پہاڑ پر چڑھنا اور نہ اس کے دامن کو چھونا۔ جو کوئی پہاڑ کو چھوئے ضرور جان سے مار ڈالا جائے۔

                                                                                                خروج 19: 10-12

یہ طریقہ پوری تورات میں جاری رہتا ہے۔ بعد میں بنی اسرائیل نے کُلی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی (انہوں نے گناہ کیا) کی۔ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کی مقدس ہیکل میں گے۔ یہاں اُن کی پریشانی پر غور کریں جب اپنی اس حالت کا نتیجہ دیکھا۔

12 اور بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا۔ دیکھ ہم نیست ہوئے جاتے۔ ہم ہلاک ہوئے جاتے۔ ہم سب کے سب ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ 13  جو کوئی خداوند کے مسکن کے نزدیک جاتا ہے مر جاتا ہے۔ تو کیا ہم سب کے سب نیست ہی ہوجائیں گے؟   گنتی 17: 12-13

حضرت ہارون جو حضرت موسیٰ کا بھائی تھا۔ جس کے دو بیٹے تھے۔ جو مقدس ترین مقام میں اپنے گناہ کی حالت میں داخل ہوئے اور وہاں مرگے۔

1 اور ہارون کے دو بیٹوں کی وفات کے بعد جب وہ خداوند کے نزدیک آئے اور مرگئے۔ 2 خداوند موسیٰ سے ہم کلام ہوا اور خداوند نے موسیٰ سے کہا اپنے بھائی ہارون سے کہہ کہ وہ ہر وقت پردہ کے اندر کے پاکترین مقام میں سرپوش کے پاس جو صندوق کے اوپر ہے نہ آیا کرے تاکہ وہ مرنہ جائے۔ کیونکہ میں سرپوش پر ابر میں دکھائی دوں گا۔

                                                                                                اخبار 16: 1-2

تاہم ہارون کو سیکھایا گیا تھا کہ وہ کیسے پاک ترین مقام میں داخل ہوسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایک کاہین کے طور پر یہ ہدایت بخشی تھی۔

7 پر مذبح کی اور پردہ کے اندر کی خدمت تیرے اور تیرے بیٹوں کے ذمہ ہے۔ سو اُس کے لیے تم اپنی کہانت کی حفاظت کرنا۔ وہاں تم ہی خدمت کیا کرنا۔ کہانت کی خدمت کا شرف میں تم کو بخشتا ہوں اور جو غیر شخص نزدیک آئے وہ جان سے مار جائے۔

                                                                                                گنتی 18: 7

 اس کے بعد حضرت موسیٰ کے پاس وراثت کے معاملہ کے لیے کچھ بیٹیاں آییں۔ جن کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ سوال یہاں یہ ہے کہ اُن کا باپ کیوں مرگیا تھا۔

3 ہمارا باپ بیابان میں مرا پر وہ اُن لوگوں میں شامل نہ تھا جنہوں نے قورح کے فریق سے مل کر خداوند کے خلاف سر اُٹھایا تھا بلکہ وہ اپنے گناہ میں مرا اور اُس کے کوئی بیٹا نہ تھا۔                                                                        گنتی 27: 3

تاہم تورات شریف کے آخر میں ایک عالمگیر نمونہ دیا گیا تھا۔

16 ۔ ۔ ۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔  استثنا 24: 16

اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل (اور ہمیں) کو سیکھا رہا تھا کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت

                             لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں کیا پایا جاتا ہے؟ کیا اس کا ثبوت ہمیں کہیں بھی مل سکتا ہے۔ جی ہاں یہ ہمارے لیے اہم ہے خاص کرجنہوں نے گناہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی راستبازی سے محروم ہیں۔ اب اس کو ہم اور واضح حضرت ہارون کی نشانی “ایک گائے اور دو بکریوں ” میں سیکھ سکیں گے۔