کیا آپ اس بات کی اُمید رکھتے ہیں کہ ایک دن آپ جنت میں داخل ہونگے؟ جنت میں داخل ہونے کے لیے ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ حضرت عیسیٰ المسیح سے ایک یہودی شریعت کے اُستاد جس کا مطلب تھا کہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت کا عالم تھا۔ اُس نے آپ سے ایک سوال کیا۔ حضرت عیسیٰ المیسح نے اُسے ایک غیر متوقع جواب دیا۔ درجہ ذیل میں انجیل شریف میں سے اس واقعہ کو درج کیا گیا ہے۔ آپ کو حضرت عیسیٰ المسیح کی تمثیل سے معلوم ہوگا کہ اُس وقت سامری لوگوں کو یہودی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ اُن ناپاک/کافر سمجھتے تھے۔ اس کے ردِعمل میں سامری یہودیوں سے نفرت رکھتے تھے۔ اس نفرت کا اندازہ آپ اس طرح لگاسکتے ہیں۔ جیسے آج اسرائیل اور فلسطین کے درمیان نفرت، یا سُنی اور شعیہ کے درمیان یا جس طرح کی صورت حال شام میں آج کل ہے۔
نیک ہمسایہ اور ہمیشہ کی زندگی کی تمثیل
http://https://youtu.be/DAPjvJFKPM4
ایک اچھے سامری کی کہا نی
25 تب ایک شریعت کا معلم یسوع کو آزمانے کے لئے اٹھ کھڑاہوا اور پو چھا، “اے استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟”
26 یسوع نے اس سے پو چھا،“شریعت میں اس کے متعلق کیا لکھا ہوا ہے ؟ اور تم وہاں کیا پڑھتے ہو؟”
27 اس نے کہا، “یہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ آپکو اپنے خدا وند سے پورے دل و جان سے پوری روح سے اور پو ری طا قت سے اور پو رے ذہن کے ساتھ محبت کر نی چاہئے۔ اور پھر جس طرح “تو اپنے آپ سے محبت کر تا ہے اسی طرح پڑوسیوں سے بھی محبت کر نی چاہئے۔” 28 یسوع نے اس سے کہا، “تیرا جواب بالکل صحیح ہے۔ تو ویسا ہی کر تب کہیں تجھے ہمیشہ کی زندگی نصیب ہو گی۔”
29 “لیکن آدمی نے بتانا چاہا کہ وہ اسکا سوال پوچھنے میں سیدھا ہے اسلئے وہ یسوع سے پو چھا کہ میرا پڑوسی کو ن ہے ؟”
30 تب یسوع نے کہا، “ایک آدمی یروشلم سے یریحو کے راستہ میں جا رہا تھا کہ چند ڈاکوؤں نے اسے گھیر لیا۔ وہ اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اسکو بہت زیا دہ پیٹا بھی اس کی یہ حالت ہو ئی کہ وہ نیم مردہ ہو گیا وہ ڈاکو اسکو وہاں چھوڑ دیئے اور چلے گئے۔
31 ایسا ہوا کہ ایک یہودی کا ہن اس راہ سے گزر رہا تھا وہ کاہن اس آدمی کو دیکھ نے کے با وجود اسکی کسی بھی قسم کی مدد کئے بغیر اپنے سفر پر آگے روانہ ہوا۔ 32 تب لاوی اسی راہ پر سے گزر تے ہوئے اس کے قریب آیا۔ وہ بھی اس زخمی آدمی کی کچھ بغیر مدد کئے اپنے سفر پر آگے بڑھ گیا۔
33 پھر ایسا ہوا کہ ایک سامری جو اس راستے پر سفر کرتے ہو ئے اس جگہ پر آیا وہ راہ پر پڑے ہو ئے زخمی آدمی کو دیکھتے ہوئے بہت دکھی ہوا۔ 34 سامری نے اس کے قریب جا کر اسکے زخموں پر زیتون کا تیل اور مئے لگا کر کپڑے سے باندھ دیا۔ وہ سامری چونکہ ایک گدھے پر سواری کرتے ہوئے بذریعے سفر وہاں پہنچا تھا۔ اس نے زخمی آدمی کو اپنے گدھے پر بٹھا ئے ہوئے اس کو ایک سرائے میں لے گیا اور اسکا علاج کیا۔ 35 دوسرے دن اس سامری نے دو چاندی کے سکّے لئے اور اسکو سرائے والے کو دیکر کہا کہ اس زخمی آدمی کی دیکھ بھا ل کرنا اگر کچھ مزید اخراجات ہوں تو پھر جب میں دوبارہ آؤنگا تو تجھ کو ادا کرونگا۔”
36 یسوع نے اسکو پو چھا “ کہ ان تینوں آدمیوں میں سے کس نے ڈاکو کے ہاتھ میں پڑے آدمی کا پڑوسی ہو نا ثابت کیا ہے؟”
37 معلّم شریعت نے جواب دیا، “اسی آدمی نے جس نے اسکی مدد کی۔” تب یسوع نے کہا، “تب تو جاکر اپنے پڑوسیوں سے ایسا ہی کر۔”
لوقا 10:25-37
جب اُس شریعت کے ماہر اُستاد نے ‘جواب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ سے مُحبّت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر مُحبّت رکھ’ تو دراصل وہ حضرت موسیٰ شریعت سے حوالہ دے رہا تھا۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے کہا کہ تمارا جواب بلکل ٹھیک ہے۔ لیکن آپ نے یہاں ایک اور سوال اُٹھایا کہ تمہارا پڑوسی کون ہے؟ لہذا آپ نے اس بات کو بیان کرنے کے لیے ایک کہانی بیان کی۔
اس کہانی میں ہم توقع کرتے تھے کہ شاید مذہبی لوگ(کاہین اور لاوی) اُس زحمی آدمی کی مدد کرتے۔ لیکن اُنہوں نے اُس شخص کو نظرانداز کیا اور اُس کو بے یارومددگارحالت میں چھوڑ کر چلے گے۔ اُن کے مذہب نے اُن کو اچھا پڑوسی نہ بننے دیا۔ اس کی بجائے وہ شخص جس کو وہ کم تر اور اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ اُس شخص نے اُس زخمی آدمی کی مدد کی ۔
اس کہانی کو بیان کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ المسیح نے کہا کہ جاؤ اور ایسا ہی کرو۔ میں آپ کے بارے میں تو نہیں جانتا۔ لیکن اس تمثیل کے بارے میں میرا پہلا ردعمل یہ تھا۔ کہ میں اس کو ٹھیک طور پر نہ سمجھ سکا۔ دوسرا یہ کہ میں اس آزمائش میں پڑگیا کہ اس طرح ظاہر کروں کہ میں نے اس کہانی کو نہیں پڑھا۔
لیکن جب میں اپنے اردگرد کے ھونے والی قتل و غارت، لڑائی، اور دلوں کا پریشان کردینے والی صورتِ حال کو دیکھتا ہوں تو اس بات کے نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ ایک بڑی اکثریت نے حضرت عیسیٰ المسیح کے اس حکم کو نظرانداز کردیا ہے۔ اگر ہم اس سامری کی طرح رہنا شروع کردیں تو ہمارے ملک اور شہروں میں خوف اور لڑائی جھگڑے کی بجائے امن اور اطمینان ہوگا ۔ اور ہمارے پاس جنت میں داخل ہونے کی یقین دہانی ہوگی۔ اس صورت حال سے یہ ثابت ہوتا ہے۔ کہ بہت کم لوگوں کے پاس یہ یقین دہانی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کتنی مذہبی زندگی بسر کررہا ہے جیسا کہ ہم نے ماہر شریعت کو دیکھا۔ جو حضرت عیسیٰ المسیح کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔
کیا آپ کے پاس ہمیشہ کی زندگی کی ضمانت ہے؟
اس طرح کا پڑوسی بن کرشاید ممکن ہو۔ لیکن ہم ایسے پڑوسی کیسے بن سکتے ہیں؟ اگر ہم اپنے آپ سے دیانتدار ہیں تو ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ایسا پڑوسی جس کا حضرت عیسیٰ المسیح نے حکم دیا ہے بننا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہاں ہم ایک اُمید کی کرن کو دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم اس بات کو جان جاتے ہیں کہ ہم ایسے پڑوسی نہیں بن سکتے۔ اور اس بات کو تسلیم کرکے۔ ہم ‘روح میں غریب’ بن جاتے ہیں۔جس کے بارے میں حضرت عیسیٰ المسیح پہلے سے سیکھا چکے تھے۔ کہ روح میں غریب ہونا۔ آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
شاید اس تمثیل کو نظرانداز کرنے یا اس سے دور بھاگنے کی بجائے۔ ہمیں اس بات کو جانچ لینا اور تسلیم کرلینا چاہے کہ ہم ایسا نہیں بن سکتے۔ کیونکہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ لہذا ہماری بے بسی کے وقت ہم اللہ تعالیٰ سے فریاد کرسکتے ہیں۔ جس کا حضرت عیسیٰ المسیح نے اپنے پہاڑی خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا۔
اپنی حاجتوں کو خدا سے مانگا کرو
7 “مانگو،تب خدا تمہیں دیگا۔تلاش کرو ،تب کہیں تم پاؤگے۔دروازہ کھٹکھٹاؤتب کہیں وہ تمہارے لئے کھلے گا۔ 8 ہاں ہمیشہ پوچھتے رہنے والے ہی کو ملتا ہے اور لگاتار ڈھونڈنے والا پا ہی لیتا ہے اور لگاتار کھٹکھٹا نے وا لے کے لئے دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔
9 “اگر تمہارا بچّہ روٹی مانگے تو کیا تم اس کو پتھر دوگے۔ 10 اگر وہ مچھلی پو چھے تو کیا اس کو سانپ دو گے۔ 11 تم خدا کی طرح اچھے نہیں ہو۔بلکہ خراب ہو لیکن اس کے با وجود تم اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا چاہتے ہو۔اس طرح تمہارا باپ بھی جنّت میں ہے پوچھنے والوں کو اچھی چیزیں دیگا۔متّی 7:7-11
تاہم ہمارے پاس حضرت المسیح کی اجازت ہے کہ ہم درخواست کرسکتے ہیں۔ اور مدد کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی جاسکتی ہے۔
اے اللہ تعالیٰ (اے آسمانی باپ) آپ نے جو آسمان سے انبیاء اکرام کو نازل فرمایا تاکہ وہ ہمیں سیدھے راہ کی تعلیم دے سکیں۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے تعلیم دی کے مجھے دوسروں سے محبت اور اُن کی مدد کرنی چاہے۔ بے شک وہ میرا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اور ایسا نہ کرنے کی وجہ سے میں جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ لیکن میں نے بات کو جانا ہے۔ کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ برائے مہربانی سے میرے مدد فرما اور مجھے تبدیل کردے تاکہ میں اس تعلیم کی پیروی کرکے جنت میں داخل ہوسکوں ۔ مجھ گنہگار پر رحم فرما۔
میں حضرت عیسیٰ المسیح کی اجازت اور حوصلہ افزائی سے یہ دعا اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں۔
(یہاں پر مخصوص الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اقرار کریں اور دعا فرمائیں)
انجیل شریف میں اس بات کا بھی ذکر ہے۔ جب حضرت عیسیٰ المسیح نے ایک سامری سے ملاقات کی۔ ایک نبی کس طرح ایسے شخص سے برتاو کرے گا جو اُس کی قوم کا دشمن اور اُس کی قوم سے نفرت رکھتا ہو؟ آپ کی اس ملاقات میں اُس سامری کےساتھ کیا ہوا؟ اور ہم اس واقع سے کیا سیکھ سکتے ہیں تاکہ ہم ایک اچھے پڑوسی بن سکیں۔ جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہم اس کے بارے میں اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔