سورہ ال قدر (سورہ 97 – قدرت) کی رات کا ذکر کرتا ہے جب قران شریف کا پہلا مکاشفہ ہوا –
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہےo
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہےo
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیںoیہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہےo
97:1-5سورہ ال– قدر
سورہ ال قدر، حالا نکہ قدرت کی رات کا بیان کرتا ہے اس بطور کہ یہ رات ‘ایک ہزار مہینوں کی رات سے بھی بہتر ہے پھر بھی یہ پوچھتا ہے کی یہ قدرت کی رات کیا تھی ؟ روح کیا کر رہی تھی کہ قدرت کی رات کو ایک ہزار مہینوں کی رات سے بہتر بناۓ ؟
سورہ ال – لیل (سورہ 92 – رات اسکا بھی وہی دن اور روشنی کا موضوع ہے جو رات کا پیچھا کرتا ہے – دن جلال کے ساتھ نکلتا ہے ،اور الله رہنمائی کرتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز کو شروع سے لیکر آخر تک جانتا ہے – اسلئے وہ ہمکو آخر میں جہنّم کی آگ سے خبردار کرتا ہے –
رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)o
اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھےo
92:1-2سورہ ال لیل
بیشک راہِ (حق) دکھانا ہمارے ذمہ ہےo
اور بیشک ہم ہی آخرت اور دنیا کے مالک ہیںo
سو میں نے تمہیں (دوزخ کی) آگ سے ڈرا دیا ہے جو بھڑک رہی ہےo
جس میں انتہائی بدبخت کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگاo
92:121-14سورہ ال لیل
ذیل کی انجیل شریف کی آیت سے سورہ ال — قدر اور سورہ ال – لیل کی آیتوں کا موازنہ کریں
(19)اور ہمارے پاس نبِیوں کا وہ کلام ہے جو زِیادہ مُعتبر ٹھہرا اور تُم اچّھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غَور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں رَوشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صُبح کا سِتارہ تُمہارے دِلوں میں نہ چمکے
1:19 -2 پطرس
کیا آپ مشابہتوں کو دیکھتے ہے ؟جب میں نے سورہ ال – قدر اور سورہ ال – لیل کو پڑھا تو مجھے ان حوالوں کو یاد دلایا گیا تھا –یہ اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ ایک رات کے بعد دوسرا دن نکلتا ہے – رات کے دوران نبیوں کو مکاشفہ دیا جاتا تھا – یہ ہم کو اس بات سے بھی خبردار کرتا ہے کہ پیغمبرانا پیغام کو نظر انداز نہ کریں ورنہ ہمکو سنجیدہ انجاما ت کا سامنا کرنا پڑیگا –
اس خط کو پطرس رسول کے ذریعے لکھا گیا تھا جو شاگردوں کا رہنما اور نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح کے زیادہ قریب میں رہنے والا شاگرد تھا – سورہ اص – صاف (سورہ 61 سلسلہ) عیسیٰ ال مسیح کے شاگردثوں کی بابت کہتا ہے –
اے ایمان والو! تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسٰی ابن مریم (علیہما السلام) نے (اپنے) حواریوں سے کہا تھا: اللہ کی (راہ کی) طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کافر ہوگیا، سو ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لے آئے تھے اُن کے دشمنوں پر مدد فرمائی پس وہ غالب ہوگئےo
61:14 سورہ اص صاف
سورہ اص – صاف اعلان کرتا ہے کہ عیسیٰ ال مسیح کے شاگرد خدا کے مددگار تھے – شاگردوں کے پیغام پر جو شخص ایمان لاتا تھا وہ اس قوت کو حاصل کرتا تھا جس کے بارے میں کہا گیا ہے – پطرس جو شاگردوں کا رہنما تھا وہ ایک طرح سے خدا کی مدد کر رہا تھا –حالاںکہ وہ نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح کا ایک شاگرد تھا ، وہ ال مسیح کے کئے ہوئے کی ایک معجزوں کا گواہ تھا ،ان کی دی ہوئی تمام تعلیمات کو بغور سنتا تھا – اور جو اسکے اختیارات ہیں اسکا انہوں نے کیسے استعمال کیا ان سب کو پطرس نے بہت نزدیکی سے دیکھا تھا – اوپر دے گئے بیانات میں اسنے یہاں تک اعلان کیا کہ نبیوں کے کلام جو اسکے بارے میں کہے گئے تھے وہ یقین سے زیادہ اور اسکے خود کی گواہی سے زیادہ سچ ثابت ہوئے –اس بات کو وہ جاری رکھتا ہے –
(20)اور پہلے یہ جان لو کہ کِتابِ مُقدّس کی کِسی نبُوّت کی بات کی تاوِیل کِسی کے ذاتی اِختیار پر مَوقُوف نہیں۔
1:20-21-2 پطرس
(21)کیونکہ نبُوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہِش سے کبھی نہیں ہُوئی بلکہ آدمی رُوحُ القُدس کی تحرِیک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔
یہ ہمسے کہتا ہے کہ پاک روح نبیوں کو اپنے ساتھ ‘لئے چلتا’ تھا ،اور جو خدا کے پیغامات کو وہ حفظ کرتے تھے انھیں خدا کے پاک روح کی موجودگی میں لکھ لیتے تھے اسی لئے یہ کلام خدا کے الہام سے ہونے کو کہلاتے ہیں – اسی سبب سے اس طرح کی ایک رات ایک ہزار مہینوں کی رات سے بہتر ہے اسلئے کی یہ روح ال قدوس سے جڑ پکڑی ہوئی ہیں – انسان کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئیں –سورہ اص – صاف ہم سے کہتا ہے کہ جنہوں نے پطرس کے پیغام پر دھیان دیا وہ ایسی قوت حاصل کرینگے جو قدرت کی رات میں استعمال کیا گیا تھا اور وہ غالب آ ینگے –
نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح کے زمانے میں رہتے وقت ‘انبیا’ جنکی بابت پطرس نے لکھا وہ پرانے عہد نامے کے نبیوں کی بابت ہے – – پرانا عہد نامہ وہ مقدّس کتابوں کا مجموعہ ہے جو مقدّس انجیل سے پہلے لکھی گیئ تھیں – حضرت موسیٰ کی تورات میں کئی ایک بیانات ہیں جو حضرت آدم ، قابیل اور ہابیل ، حضرت نوح ، حضرت لوط ، حضرت ابراہیم اور دیگر نبیوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں – ان نبیوں کے بیانات کے ساتھ یہ بھی ذکر ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے فرعون کا سامنا کیا اور پھر شریعت کی کتاب حاصل کی – اور یہ بھی کہ انکے بھائی حضرت ہارون کی قربانیوں کا ذکر ہے – قران شریف میں سورہ بقرہ کا جو نام دیا گیا ہے وہ انہی قربانیوں کو لیکر دیا گیا ہے –
تورات کے خاتمے کا پیچھا کرتے ہوئے ہم زبور شریف میں پہنچتے ہیں جہاں حضرت داؤد حضرت مسیح کی آمد کے بارے میں لکھنے کے لئے الہامی ہوتے ہیں –پھر سلسلےوار نبیوں نے نبوت کی کہ جب مسیح کنواری سے پیدا ہونگے تو الله کی بادشاہی زمیں کے سب لوگوں کے لئے کھل جاینگی –اسکے علاوہ مسیح کو آنے والا خادم بھی کہا گیا ہے جو دکھوں کو سہنے والا ہوگا –پھر اسکا نام مسیح ہوگا کرکے اسکے آنے کے ٹھیک وقت کے ساتھ نبوت کیا گیا ہے اسکے ساتھ ہی ایک راستہ تییار کرنے والا پیشوا کا بھی وعدہ کیا گیا ہے –
ہم میں سے اکثر لوگوں کے پاس موقع نہیں رہا تھا ہوگا کہ اپنے خود کے لئے ان دستاویزوں کو پڑھتے – یھاں ان فرق فرق کڑیوں کے ساتھ انہیں پڑھنے کا ایک سنہرا موقع ہے – سورہ ال – لیل آنے والے جہنّم کی آگ کی بابت ہمیں خبردار کرتا ہے – سورہ ال قدر اعلان کرتا ہے خدا کا روح اس قدرت کی رات کے دوران کامکر رہا تھا – سورہ اص –صاف ان لوگوں کو روح کی قوت دینے کا وعدہ کرتا ہے جو رسولوں کے پیغام پر ایمان لاتے ہیں – پطرس جو عیسیٰ ال مسیح کے شاگردوں رہنما تھا وہ ہمیں نصیحت دیتا ہے کی قدیم نبییوں کے مکاشفے جو دستاویزوں میں موجود ہے انپر غور طلب فرمائیں ، جو رات کے وقت میں دے گئے تھے ، جنہوں نے اچھے دن کی راہ دیکھی – کیا یہ سمجھداری نہیں ہوگی کہ ان کے پیغامات کو جانیں ؟