- ہمارے پچھلے مضامین میں ہم نے دیکھا ہے کہ نبیوں نےمسیح کے نام اور ان کے نازل ہونے کے وقت کے بارے پیشن گوئیاں کیں۔ یہ حیرت انگیز طور پر مخصوص پیشن گوئیاں ہیں، جو حضرت عیسیٰ مسیح کی آمد کے سینکڑوں سال پہلے لکھی گئیں اور نبیوں نے اس کے بارے صحیح پیش گوئی کی. یہ پیشن گوئیاں یہودیوں کی مقدس کتاب (تورات شریف + زبور شریف) میں لکھی ہوئی ہیں، لیکن یہ قرآن شریف اور انجیل شریف میں موجود نہیں ہیں. لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں یہودیوں نے ابھی تک حضرت عیسیٰ کو مسیح (مسیح) کے طور پر قبول نہیں کیا؟ جبکہ ان ہی کی کتابوں میں یہ تمام پیشن گوئیاں لکھی ہوئی ہیں۔
اس سے پہلے ہم اس سوال پر غور کریں۔ مجھے یہاں اس بات کو واضح کرنا ہو گا۔ کہ میں یہ سوال کیوں پوچھ رہا ہوں۔ یوں تو حضرت عیسیٰ مسیح کی زندگی میں بہت سے یہودیوں نے اُنہیں مسیح کے طور پر قبول کرلیا تھا۔ اور آج بھی بہت سے یہودیوں نے انہیں مسیح کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ لیکن ایک حقیقت پھر بھی موجود ہے کہ یہودیوں نے عیسیٰ مسیح کو بطور قوم قبول نہیں کیا، کیوں؟
کیوں یہودی حضرت عیسیٰ کو مسیح کے طور پر قبول نہیں کرتے؟
متی رسول کے مطابق انجیل میں حضرت عیسیٰ کا یہودیوں کے مذہبی اساتذہ (فریسیوں اور صدوسیوں، یہ آج کے امام کا درجہ رکھتے تھے) کے ساتھ آمنا سامنا ہوتا ہے. انہوں نے حضرت عیسیٰ مسیح سے ایک مکر کے ساتھ سوال کیا اور ذیل میں حضرت عیسیٰ کا جواب ہے۔
یِسُوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ تُم گُمراہ ہو اِس لِئے کہ نہ کِتابِ مُقدّس کو جانتے ہو نہ خُدا کی قُدرت کو۔ (متی 22: 29
یہ تبادلہ ہمیں ایک اہم بات کی طرف اشارہ دیتا ہے. اگرچہ وہ کتابِ مقدس کے اُستاد تھے۔ اُنہوں نے تورات شریف اور زبور شریف کی تعلیم لوگوں کو دیتے تھے۔ لیکن حضرت عیسیٰ مسیح نے ان کو کہا۔ کہ وہ نہ تو کتابِ مقدس کو جانتے ہیں اور نہ ہی خدا کی قدرت کو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کتابِ مقدس کے ماہرین اس کو سمجھتے نہ تھے؟
یہودی تمام صحیفوں کو نہیں جانتے تھے
جب آپ اس بات کے لیے مطالعہ کرتے ہیں کہ مذہبی رہنماؤں کی بات چیت کو زبور شریف اور تورات شریف میں سے تلاوت کرتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف بعض مخصوص پیشن گوئیوں سے بہت زیادہ واقف تھے لیکن دوسری پیشن گوئیوں کو اُنہوں نے نظرانداز کردیا۔ لہذا ہم مثال کے طور پر دیکھتے ہیں، ، کنواری کے بیٹے کی نشانی میں،کتابِ مقدس کے ماہرین جانتے تھے کہ پیشن گوئیوں کے مطابق “مسیح” بیت لحم میں پیدا ہوگا۔ یہاں وہ آیت درج ہے جس آیت کو کتابِ مقدس کے ماہرین نے بیان کیا۔ جب ہیرودیس بادشاہ کے عہد میں حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدائش ہوئی۔
لیکن اے بیت لحم افراتاہ
اگرچہ تو یہُوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چُھوٹا ہے
تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا
اور میرے حُضور اسرائیل کا حاکم ہوگا
اور اس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایّام سے ہے۔ میکاہ 5: 2
آپ اس آیت میں سے یہ جانیں گے کہ یہ آیت مسیح کے بارے میں بیان کرتی ہے۔ جو مسیح (= مسیح کی اصطلاح کے بارے میں یہاں آپ جان سکتے ہیں) اور یہ آیت اُن کو ‘حکمران’ کے طور پر بیان کرتی ہے. یہودی ماہرین کے لیے ایک اور جانا پہچانا حوالہ ہے۔ جو زبور شریف کے دوسرے (2)باب میں حضرت داود نبی پر نازل ہوا۔ جس میں پہلے مسیح کے طور پر تعارف کروایا گیا اور پھر بتایا کہ مسیح یروشلیم (صیون) میں بادشاہی کرے گا۔ جس طرح ہم نے حوالے میں دیکھا۔
خُداوند اور اُس کے مسیح کے خلاف زمیں کے بادشاہ صف آرائی کرکے اور حاکم آپس میں مشورہ کرکے کہتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسیگا۔خُداوند اُن کا مضحکہ اُڑائےگا۔ ۔ ۔ میں تو اپنے بادشاہ کو اپنے کوہ ِمقدس صِیون پر بٹھا چُکا ہوں۔ (زبور شریف باب 2
یہودی اساتذہ زربور کی مندرجہ ذیل آیات سے اچھی طرح سے واقف تھے
اپنے بندہ داؤد کی خاطر اپنے ممسوح کی دُعا نا منظور نہ کر ۔ خُداوند نے سچّائی کے ساتھ داؤؔد سے قسم کھائی ہے۔ اور اُس سے پھرنے کا نہیں۔ کہ میں تیری اولاد میں سے کسی کو تیرے تخت پر بٹھاؤنگا، ۔ ۔ ۔ وہیں میَں داؤؔد کے لئے ایک سینگ نکالونگا۔ میَں نے اپنے ممسُوح کے لئے چراغ تیار کیا ہے. زبور 132: 10-18
یہودیوں نے خدا تعالیٰ کی قدرت کو اپنی منطقی عقل سے نہ جانا۔
چنانچہ وہ کئی ایسی پشین گوئیوں کو جانتے تھے، جن میں سب ایک طرف اشارہ کرتیں تھی – کہ مسیح اقتدارکے ساتھ حکمرانی کرے گا۔ حضرت عیسیٰ مسیح کے دور میں یہودی رومی حکومت کی غلام تھی۔ اس طرح رومی اسرائیلی ملک پر قبضہ کے تحت رہتے تھے (یہودیوں کی تاریخ کے لئے یہاں ملاحظہ کریں) یہودی صرف اسی قسم کے مسیح کے منتظر تھے۔ کہ مسیح آئے اور آکر رومی حکومت کو تباہ و برباد کردے اور اُسی حکومت کو قائم کردے۔ جس کو حضرت دواد نے 1000 سال پہلے قائم کیا تھا۔ (یہاں حضرت دواد کا پس منظر دیکھیں)۔ وہ اللہ تعالی کی منصوبہ بندی کے بجائے اپنی خواہشات سے مسیح کو ڈھونڈ رہے تھے۔
اس طرح انہوں نے خدا کی طاقت کو اپنی انسانی سوچ کی وجہ سے محدود کردیا۔ کیونکہ وہ ایسی ہی پیشن گوئیوں کو جاننا پسند کرتے تھے جن میں مسیح یروشلیم پر حکمرانی کرے گا۔ اور حضرت عیسیٰ نے یروشلیم ہر حکمرانی نہ کی۔ اس لیے یہودیوں کے نزدیک وہ مسیح نہ ہوا۔ یہ ایک سادہ سی منطقی بات تھی۔ اُنہوں نے خدا کی طاقت کو اپنی انسانی سوچ، محدود علم اور منطقی عقل کے باعث محدود کردیا۔
اُس وقت یہودی زبور شریف کی پیشن گوئیوں کو بہت زیادہ نہیں جانتے تھے اگرچہ وہ اپنی ساری معلومات کے لیے تناخ = (تورات شریف + زبور شریف) میں سے راہنمائی لیتے تھے جس کو وہ تناخ کہتے ہیں. لیکن وہ کسی بھی راہنمائی کے لیے زیادہ تورات شریف کا ہی مطالعہ کرتے تھے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو جو زبور شریف میں موجود تھا اُس کو نظرانداز کررہے تھے۔ اس طرح پیشن گوئیوں کا زیادہ تر حصہ نظرانداز ہوگیا۔ اور اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طاقت کو اپنی انسانی علم اور منطق کے باعث محدود کردیا۔ اس لیے اُن کے مطابق حضرت عیسیٰ مسیح نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اُنہوں نے حکمرانی نہیں کی تھی۔ اس کہانی کا آخر یہ ہوا کہ یہودی نے حضرت عیسیٰ مسیح کے بارے میں مذید تحقیق کرنی چھوڑدی۔ اور اب بھی وہ مسیح کا انتظار کررہے ہیں۔
مسیح : قربان ہونے کے لیے آئے
لیکن اگر یہودی صحائف کا جائزہ لیں تو وہ جس بات کو ہم سکھنے جارہیں ہیں اُس کو وہ بھی سکھیں سکیں جائیں گے۔ پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا کہ حضرت دانیال نے مسیح کے آنے کے بارے میں ٹھیک پیش گوئی کی تھی۔ لیکن اس بات پر غور کریں۔ کہ اُس نے مسیح کے بارے میں کیا کہا ہے۔ (مسموح = مسیح= کرائسٹ/مسیح
پس تو معلوم کر اور سمجھ لے کہ یروشیلم کی بحالی اور تعمیر کا حُکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے۔ تب پھر بازار تعمیر کئے جائیں گے اور فصیل بنائی جائے گی مگر مُصیبت کے ایّام میں ۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد وہ ممسوح قتل کیا جائے گا اور اُس کا کچھ نہ رہے گا اور ایک بادشاہ آے گا جس کے لوگ شہر اور مقدس کو مسمار کریں گے اور اُس کا انجام گویا طُوفان کے ساتھ ہوگا اور آخر تک لڑائی رہے گی۔ بربادی مُقرر ہو چُکی ہے۔ (دانی ایل 9: 25-26
غور کریں کہ حضرت دانیال نے کیا کہا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو اُس کے ساتھ کیا ہوگا.کیا حضرت دانیال نے کہا کہ مسیح حکمرانی کرے گا؟ کہ وہ اپنے باپ دادا کے تخت پر قنضہ کرے گا اور رومی حکومت کو تباہ و برباد کردے گا؟نہیں! بلکہ حقیقت میں یہ بڑا واضح لکھا ہوا ہے۔ کہ وہ ممسوح قتل کیا جائے گا اور اُس کا کچھ نہ رہے گا ۔پھر یہ لکھا ہوا ہےکہ غیر قومیں ہیکل مقدس (جو یہودیوں کے لیے پاک مقام ہے) اور یروشلیم شہر کو تباہ کردیں گی۔ اگر آپ یہودیوں کی تاریخ پر نظر لگائے تو آپ جانیں گے کہ تاریخ میں ایسا ہی ہوا تھا۔ حضرت عیسیٰ مسیح کے چالیس سال بعد رومیوں نے یروشلیم پر حملہ کیا اور ہیکل مقدس اور یروشلیم شہر کو تباہ و برباد کردیا بلکہ حضرت عیسیٰ نے اس کے بارے کہا تھا۔ کہ اس پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا۔ یہ اسی طرح ہوا۔ جیسے حضرت دانیال نے پیش گوئی کی تھی۔ اور یہودیوں کو پوری دنیا میں جلاوطن کردیا گیا۔ تقریبات 70 عیسوی میں ویسے ہی واقع ہوا۔ جیسے 537 ق.م. حضرت دانیال نے پیش گوئی کی تھی،اور اس کا حضرت موسیٰ نے لعنت کرتے ہوئے پہلے ذکر کیا تھا۔
لہذا حضرت دانیال نے پیشن گوئی کی تھی کہ مسیح حکمرانی نہیں کرنے آرہا بلکہ وہ قتل کیا جائے گا اور اُس کا کچھ نہ رہے گا۔ یہودی راہنماوں نے اس پیشن گوئی کو اپنی ضرورت کے تحت ںظرانداز کردیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔ کیا حضرت دانیال کی پیشن گوئیوں اور جن پیشن گوئیوں کو یہودی راہنما جانتے تھے۔ ان کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے؟اگر تمام پغامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں تو ان کو سچائی کے ساتھ پورا بھی ہونا چاہیے۔ جیسے حضرت موسی کی طرف سے تورات میں لکھا ہے.یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ مسیح قتل بھی کیا جائے اور پھر حکمرانی بھی کرے۔ یہاں اس بات سے ایسا لگتا ہے کہ انسانی منطق نے “خدا کی قدرت” کو ختم کردیا تھا۔
قتل ہونے اور حکمرانی کے تضاد کی وضاحت
لیکن یقینا ان کی منطقی عقل خدا کی قدرت سے زیادہ مستحکم نہیں تھی۔ وہ ہماری طرح کے انسان تھے۔ وہ خود اُن مفروضوں کو نہیں جانتے تھے جن کو وہ بنا رہے تھے۔ اُنہوں نے مفروضہ لگایا تھا کہ شاید مسیح ایک ہی بار آئے گا۔ اگر یہ معاملہ تھا تو اس کی وجہ سے حکمرانی کرنے والی اور قتل ہونے والی پیشن گوئیوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اس طرح اُنہوں نے اپنی عقل کے باعث اللہ تعالیٰ کی قدرت کو محدود کردیا تھا۔ لیکن یہ انسانی منطق تھا جو کہ ناقص ہے۔ مسیح کو دوبار آنا تھا۔ پہلی دفعہ وہ آیا تاکہ قربان ہونے والی پیشن گوئیوں کو پورا کرسکے۔ اور دوسری بار وہ حکمرانی والی پیشن گوئیوں کو پورا کرنے آرہا ہے۔ اس نکتہ نظر سے ‘تضاد’ والا مسئلہ آسانی سے حل ہو جاتا ہے.
کیا ہم نے خدا کی قدرت کو محدود اور صحیفوں کو بھلا دیا ہے؟
لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ مسیح قتل کیا جائے گا اور اُ س کا کچھ نہیں رہے گا؟ اس سوال کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔ لیکن اب ہم اس بات کے بارے میں بات کریں گے کہ یہودی کیسے ان نشانیوں کو چھوڑ گے۔ ہم پہلے ہی دو وجوہات کا ذکر کرچکے ہیں کہ یہودیوں نے کیوں مسیح کے نشانوں کو نظرانداز کردیا۔ یہاں ہمارے پاس تیسری وجہ حضرت یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل میں موجود ہے۔ یہاں پر حضرت عیسیٰ اور یہودیوں کے مذہبی راہنماوں کے درمیان بات چیت ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا۔
تُم کِتابِ مُقدّس میں ڈھُونڈتے ہو کِیُونکہ سَمَجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زِندگی تُمہیں مِلتی ہے اور یہ وہ ہے جو میری گواہی دیتی ہے۔ پِھر بھی تُم زِندگی پانے کے لِئے میرے پاس آنا نہِیں چاہتے۔ مَیں آدمِیوں سے عِزّت نہِیں چاہتا۔ لیکِن مَیں تُم کو جانتا ہُوں کہ تُم میں خُدا کی محبّت نہِیں۔
مَیں اپنے باپ کے نام سے آیا ہُوں اور تُم مُجھے قُبُول نہِیں کرتے۔ اگر کوئی اَور اپنے ہی نام سے آئے تو اُسے قُبُول کر لو گے۔ تُم جو ایک دُوسرے سے عِزّت چاہتے ہو اور وہ عِزّت جو خُدایِ واحِد کی طرف سے ہوتی ہے نہِیں چاہتے کیونکر اِیمان لاسکتے ہو؟۔ یوحنا 5: 39-44
دوسرے الفاظ میں تیسری وجہ میں یہودیوں نے مسیح کے نشان کو نظرانداز کردیا کیونکہ اُنہوں نے صرف سادہ سے انداز میں اس کو قبول نہ کیا۔ وہ خدا کی مرضی کو پورا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مرضی کو قبول کرنے کی دلچسپی رکھتے تھے۔
یہودی دوسرے لوگوں کی نسبت غلط اور گمراہ نہیں تھے.لیکن یہ آسان ہے کے ہم اُن پر اس بات کے بارے میں الزام لگاسکتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو مسیح ثابت کرنے والی پیشن گوئیوں کو نظرانداز کردیا۔لیکن اس سے پہلے ہم اُن پر اُنگلیاں اُٹھائیں ہمیں اپنے گریبان میں جانکنے کی ضرورت ہے۔کیا ہم ایمانداری کے ساتھ کہا سکتے ہیں کہ ہم کلام مقدس کو مکمل طور پر جانتے ہیں؟کیا ہم یہودیوں کی طرح رویہ نہیں رکھتے ہیں کہ ہم صرف اُن حوالہ جات کو ہی جانتے ہیں جو زیادہ آسان اور آسانی سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ یا کئی بار ہم کلامِ الہی میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کو قبول نہیں کرتے۔ صرف یہ سوچ کر کے دوسرے کیا سوچیں گے؟
یہودیوں کا مسیح کے نشان کو یاد نہ رکھنا ہمارے لیےایک انتباہ ہونا چاہئے. ہمیں صرف اُنہیں آیات تک محدود نہیں رہنا چاہئے جن آیات کو ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ ہمیں اپنی عقلی منطقی دللائل کے زریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو محدود نہیں کرنا چاہئے۔ اور جب ہمیں کلامِ الہی سکھارہا ہو توہمیں اُس کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں ان تمام تر انتباہ کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے تاکہ ہم یہودیوں کی طرح کلامِ الہی کو نظرانداز نہ کردیں ۔ جس طرح اُنہوں نے کیا تھا۔ اب ہم ایک اہم آدمی کے بارے میں بات چیت کرنے جارہے ہیں۔ جس کو ہم “خادم” کے طور پر جانیں گے۔