یہ کیا ہے جسکی ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرورت ہے؟ ہم اس سوال کے بہت سارے جواب سوچ سکتے ہیں۔ لیکن حضرت آدم ؑ کی نشانی یاددلاتی ہے۔ کہ سب سے اوّل اور عظیم ترین ضرورت راستبازی کی ہے۔ قرآن شریف میں یہ الفاظ برائے راست ہمارے ساتھ مخاطب ہیں( آدم ؑ کی اولاد
اے آدم کی اولاد ! بیشک ہم نے رتمہاری طرف ایک لباس وہ اُتارا کہ تمہاری شرم کی چیزیں چھپائے اور ایک وہ کہ تمہاری آرائش ہو اور پرہیزگاری کا لباس وہ سب سے بھلا یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
(سورة الاعراف 7:26 )
تو پھر راستبازی کیا ہے؟ (تورات شریف کی پانچویں کتاب استثنا 32:3-4 ) ہمیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتاتی ہے۔
کیونکہ میں خداوند کے نام کا اشتہار دوں گا۔ تم ہمارے خدا کی تعظیم کرو۔´ وہ ہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامِل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مُبّرا ہے۔ وہ منصف اور بر حق ہے۔ استثنا 32 :3-4
راستبازی کی یہ تصویر اللہ تعالیٰ نے ہمیں تورات شریف میں دی ہے۔ راستبازی کا مطلب ہے وہ جو کامِل ہے۔ وہ جو سب راہوں میں سچا ہے۔ تورات شریف اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس طرح بیان کرتی ہے۔ لیکن ہمیں کیوں ضرورت ہے کہ ہم راستبازی کے بارے میںجانیں ؟ ہم اس کا زبور شریف میںجواب دیکھتے ہیں
زبور 15
۱)اے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہے گا؟
تیرے کوہ مقدس پر کون سکونت کرے گا؟
۲) وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔
۳) وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سُنتا۔
۴) وہ جس کی نظر میں رذیل آدمی حقیر ہے پر جو خداوند سے ڈرتے ہیں اُن کی عزت کرتا ہے۔ وہ جو قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اُٹھائے۔
۵) وہ جو اپنا روپیہ سُود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھا ئے گا۔
جب وہ یہ پوچھتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے پہاڑ پر کون رہے گا۔ تو دوسرے معنوں میں وہ یہ پوچھ رہا ہوتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی جنت میں کون رہے گا۔ تو ہم اس کا جواب اس طرح پڑھتے ہیں۔ وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دِل سے سچ بولتا ہے۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی جنت میں اُس کے ساتھ رہے گا۔ اس طرح کی راستبازی کی ہمیں ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنت میں رہنے کے لیے راستبازی ضروری ہے۔
حضرت ابراہیم کے بارے میں سوچو. وہ کس طرح راستبازی حاصل کی بارے مقدس کتابوں میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں.
حضرت آدم ؑکی نشانی بھی ہمیں یہی سیکھاتی ہیں کہ ہمیں راستبازی کی ضرورت ہے۔ تاہم یہاں پر سوال یہ ہے۔ کہ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ سب کیسے حاصل کیا؟
اکثر میں سوچتا ہوں کہ میں دو میں سے ایک راستہ پر چل کر راستبازی حاصل کرسکتا ہوں۔
پہلا راستہ: میں راستبازی ا س طرح حاصل کر سکتا ہوں ۔ کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوں اور یقین رکھوں۔ کہ اللہ تعالیٰ وجود رکھتاہے۔ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔ کیایہ سوچ اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور وہ راستباز ٹھہرے ۔ لیکن غور و حوض کرنے کے بعد میں اس حقیقت کو جان سکا ۔کہ اس کا صرف یہ مطلب نہیں تھا۔ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لائے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکے ساتھ سچا وعدہ کیا۔ کہ تیرے ایک بیٹا پیدا ہوگا ۔ اور یہ وہ وعدہ تھا جس پر ابراہیم ؑ کو ایمان لاناتھا ےا ایمان نہیںلانا تھا۔ اسی طرح سوچیں تو ہم جانتے ہیں ۔ کہ ابلیس بھی ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ لیکن اس کے باعث وہ راستباز نہیں ہے۔ اس طرح صرف یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔
دوسراراستہ:میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میں نیک کام کرکے راستبازی حاصل کرسکتا ہوں۔ بُرے کاموں کی نسبت زیادہ اچھے کام کرنے سے یا کوئی خاص نیک کام کرنے سے یا کسی حد تک نیک کام کرنے سے راستبازی حاصل کرسکتا ہوں یا کماسکتاہوں۔ لیکن ےاد رکھیں ۔ تورات شریف کا حوالہ کیا کہتا ہے؟ میں نے یہاں تورات شریف کی آیت پھر سے لکھی ہے۔ تاکہ ہم پھر سے اس آیت کو دیکھ سکیں۔
اور وہ (حضرت ابراہیم ؑ ) خداوند پر ایمان لایا اور اسے اُس نے اُس کے حق میں راستبازی شمار کیا۔´ پیدایش 15:6
حضرت ابراہیم ؑ نے راستبازی نیک کاموں کے وسیلے کمائی نہیں تھی ۔ بلکہ یہ اُن کے لیے شمار کیاگیا۔ اس کا کیا فرق ہے؟ ٹھیک اسی طرح! اگر آپ کچھ کماتے ہیں۔ تو اُس کے لیے آپ کو کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ آپ کوئی کام کرتے ہیں اور اُس کی اُجرت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جب کوئی چیز آپ کو مفت دی جائے ۔ تو اُس کے لیے آپ کو کچھ کمانا یا کام نہیں کرنا پڑتا۔
حضرت ابراہیم ؑ ایک آدمی تھا۔ جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر گہرا ایمان رکھتاتھا۔وہ ایک مردِ دعا، دیندار اور دوسرے لوگوں کی مدد کرتا تھا۔البتہ ہم ان باتوں کو رد نہیں کررہے۔لیکن جو طریقہ یہاں پر بتایا گیا ہے ہم اُس کو آسانی سے نظر انداز کرسکتے ہیں ۔ تورات شریف ہمیں بتاتی ہے کہ ابراہیم ؑ راستباز ٹھہرا کیونکہ اُس وعدہ پر ایمان رکھا جو اللہ تعالیٰ نے اُس سے کیا تھا۔ یہ عام فہم بات کے اُلٹ ہے۔ کہ ہم راستبازی حاصل کرسکتے ہیں۔ صرف اس سوچ اور ایمان سے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ یا پھر نیک کام کرنے سے ہم راستبازی کے معیار کو حاصل کرسکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس طریقہ کو نہیں اپنایا تھا۔ بلکہ اُس نے بڑے سادہ انداز میں اُس وعدہ پر ایمان رکھا۔
اب اس بات کا انتخاب کرنا اور یقین رکھناکہ میں تم کو بیٹا دوں گا۔ شاید یہ سادہ ہے لیکن یہ یقینی طور پر آسان نہیں تھا۔ ابراہیم ؑ آسانی سے اس وعدہ کو نظرانداز کرسکتا تھااس وجہ کو بیان کرکے۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ واقعی مجھے بیٹا عطا کرنا چاہتا ہے تو وہ مجھے اس وقت اس کے لیے طاقت بھی عطا فرمائیں۔ کیونکہ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ اور اُس کی بیوی حضرت سارہ ؑ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ وہ بچے پیدا کرنے کی عمر میں سے گزر چکے تھے۔ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی پہلی نشانی میں وہ 75 سال کی عمر کے تھے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنا گھر، رشتے دار اور ملک چھوڑ کر ملکِ کنعان کو ہجرت کی۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُس کو ایک بڑی قوم بنائے گا۔ اور اب کئی سال گزرگئے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور اُس کی بیوی بوڑھے ہو چکے تھے اور پہلے ہی بہت زےادہ انتظار کر چکے تھے۔ اُن کا نہ تو کوئی بچہ تھا اور نہ ہی کوئی قوم۔ وہ اس بات سے حیران ہو سکتاتھا۔ اگر اللہ تعالیٰ بیٹا دے سکتا تھا تو اس نے ابھی تک کیوں نہیں دیا؟ لیکن دوسرے الفاظ میں اُس نے آنے والے بیٹے کے وعدے کا یقین کیا۔ تاہم اُن کو اُس وعدہ کے بارے میں مکمل سمجھ نہیں تھی۔ اس و عدے پر یقین کرناکہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم ؑ اور اس کی بیوی کو بیٹا دے گا یہ ایک معجزاہ کے مترادف تھا ۔ اورو عدے پر یقین کرناانتظار کرنے کا مطالبہ تھا۔ وعدہ کئے ہوئے بیٹے کے انتظار میں اور اس کے احساس میں اُس کی ساری عمر ملکِ کنعان کے خیموں میں گزر گئی۔ اُس کے لیے بڑھا آسان تھا کہ وہ اس وعدے کو رد کرے اور واپس اپنے آبائی ملک( جو اس وقت کا ترقی یافتہ ملک تھا) مسوپتامیہ میں چلا جائے۔ جس کو اس نے بہت سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔ جہاں اُس کے بھائی اور خاندان رہتا تھا۔ لیکن ابراہیم ؑ وہاں تمام تر مشکلات اور وعدے پر یقین رکھتا رہا۔ ہرایک دن اور بہت سارے سال اس نے وعدہ پورا ہونے کے انتظار میں گزار دئیے۔ اُس نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو اپنی عام زندگی کے کاموں سے بڑھ کر ترجیع دی اور اس میں مطمن تھا۔ حقیقی معنوں میں پورے ہونے والے وعدے پر مکمل طور پر بھروسہ کرنے سے مراد معمول کی زندگی کو ختم کرنا تھا۔ وعدے پر بھروسے سے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ۔ حضرت ابراہیم ؑ کا اللہ تعالیٰ پر ایمان اور محبت کس قدر تھی۔
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کا وعدے پر ایمان اس کے جذبات اور ذہنی احساسات سے بڑھ کر تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنی زندگی، اپنی شہرت، حفاظت اور اس وعدے کے بارے میں حال کی اور مستقبل کی امید وں کو بلکہ سب کچھ داﺅ پر لگانا پڑا۔ کیونکہ اس کو یقین تھاکہ وہ فرمانیرداری کے ساتھ انتظار کر رہا ہے۔ تاہم حضرت ابراہیم ؑ کی نشانی ہمیں بتاتی ہے۔ کیسے اس نے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر بھروسہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اُسکو ایک بیٹا دے گا۔ اور ایسا کرنے سے حضرت ابراہیم ؑ راستباز قرار دیا گیا۔ حقیقی معنوں میں حضرت ابراہیم ؑ نے وعدے کی مکمل اطاعت کی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس کا انتخاب نہ کیا ۔کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کا انکار کر دیںاور اپنے آبائی ملک واپس چلیں جائیں۔ لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان رکھا۔ نماز پڑھتے اور دوسرے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ اس صورت حال میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی مذہبی فرائض کو جاری رکھالیکن یہ کام راستبازی کمانے کے لیے نہیں کرتے تھے۔ جس طرح قرآن شریف حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ارشاد فرماتا ہے۔
سب سے بہترین لباس راستبازی کا ہے
یہ حضرت ابراہیم ؑ کا طریقہ کار ہے۔
اب تک ہم بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے۔ کہ ہم اپنے نیک کاموں سے جنت کما نہیں سکتے۔ بلکہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کرنے سے مل جاتی ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم ؑ کی نشانی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ ہم تیسری نشانی جاری رہیں گے۔