جیسا میں انٹرنیشنل خبریں دیکھتا اور پڑھتا ہوں۔ تو اس سب کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہماری دنیا خون اور تشدد اور خوف میں ڈوبی ہوئی ہے۔ افغانستان میں بمباری، لبنان، شام، اور عراق میں جنگ وجدل ، پاکستان میں قتلِ عام ، ترکی میں فسادات، نئجیریا میں سکول کے بچے اغوا، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگی صورتِ حال، کنیا میں قتل عام، یہ سب خبریں میں نے بغیر کسی تلاش کے سُنی۔ دوسرے الفاظ میں یہ ساری خبریں عام ہیں اور ہر کوئی ان خبروں کو آسانی سے پڑھ اور سُن سکتا ہے۔اس کے ساتھ کئی ایسی خبریں ہیں۔ مثال کے طور پر گناہوں کی کثرت، دکھ، اور غم جیسی باتوں کو ہیڈلائن نہیں بنایا جاتا۔ ہیڈلائن نہ بننے کے باوجود یہ ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس دور میں جہاں درد، جنگوں جدل اور لڑائی جھگڑا عام ہے وہاں حضرت عیسیٰ المسیح کی معاف کرنے کی تعلیم بہت ہی اہمیت کی رکھتی ہے۔ ایک دن آپ کے حواری نے سوال کیا۔ کہ مجھے کتنی بار معاف کرنا ہے۔ یہاں پر انجیل شریف میں اس سوال کا جواب یوں لکھا ہے۔
غیر متفق خدمتگار کی کہانی – میتھیو 18: 21-35
معافی سے متعلق کہانی
21 پطرس یسوع کے پاس آیا اور “پوچھا اے خدا وند میرا بھا ئی میرے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی برائی
کرتا ہی رہا تو میں اسے کتنی مرتبہ معاف کروں ؟ کیا میں اسے سات مرتبہ معاف کروں ؟”
22 یسوع نے اس سے کہا، “تمہیں اس کو سات مرتبہ سے زیادہ معاف کرنا چاہئے۔ اگر چہ کہ وہ تجھ سے ستر مرتبہ برائی نہ کرے اسکو معاف کرتا ہی رہ۔”
23 “آسمانی بادشاہت کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک بادشاہ نے اپنے خادموں کو دیئے گئے قرض کی رقم وصول کر نے کا فیصلہ کیا۔ 24 بادشاہ نے اپنی رقم کی وصولی کا سلسلہ شروع کیا۔ جبکہ ایک خادم کو دس ہزار چاندی کے سکّے بادشاہ کو بطور قرض دینا تھا۔ 25 وہ خا دم بادشاہ کو قرض کی رقم دینے کے قابل نہ تھا۔ جس کی وجہ سے باد شا ہ نے حکم دیا کہ خا دم اور اس کے پاس کی ہر چیز کو اور اس کی بیوی کو ان کے بچوں سمیت فروخت کیا جا ئے اور اس سے حا صل ہو نے والی رقم کو قرض میں ادا کیا جا ئے۔
26 “تب خادم باد شاہ کے قد موں پر گرا اور اس سے عاجزی کر نے لگا۔ ذرا صبر و برداشت سے کام لے میں اپنی طرف سے سا را قرض ادا کروں گا۔ 27 باد شا ہ نے اپنے خادم کے بارے میں افسوس کیا اور کہا، “تمہیں قرض ادا کر نے کی ضرورت نہیں باد شاہ نے خادم کو آزادا نہ جانے دیا۔
28 “پھر اس کے بعد وہی خادم دوسرے ایک اور خادم کو جو اس سے چاندی کے سو سکے لئے تھے اس کو دیکھا اور اس کی گردن پکڑ لی اور اس سے کہا کہ تو نے مجھ سے جو لیا تھا وہ دیدے۔
29 وہ خا دم اس کے پیروں پر گر پڑا اور منت و سما جت کر تے ہوئے کہنے لگا کہ ذرا صبر سے کام لے۔ تجھے جو قرض دینا ہے وہ میں پورا ادا کروں گا۔
30 “لیکن پہلے خادم نے انکار کیا۔ اور اس خادم کے با رے میں جو اس کو قرض دینا ہے عدا لت میں لے گیا اور اس کی شکا یت کی اور اس کو قید میں ڈلوا دیا اور اس خادم کو قرض کی ادائیگی تک جیل میں رہنا پڑا۔ 31 اس واقعہ کو دیکھنے وا لے دوسرے خادموں نے بہت افسوس کر تے ہو ئے پیش آئے ہوئے حادثہ اپنے ما لک کو سنائے۔
32 “تب مالک نے اس کو اندر بلا یا اور کہا، “تم برے خادم نے مجھ سے بہت زیادہ رقم لی تھی لیکن تم نے مجھ سے قرض کی معا فی کے لئے منت وسماجت کی۔” جس کی وجہ سے میں نے تیرا پورا قرض معا ف کر دیا۔ 33 اور کہا کہ ایسی صورت میں جس طرح میں نے تیرے ساتھ رحم و کرم کا سلوک کیا اسی طرح دوسرے نو کر سے تجھے بھی چاہئے تھا کہ ہمدر دی کا بر تاؤ کرے۔ 34 ما لک نہایت غضبناک ہوا۔اور اس نے سزا کے لئے خادم کو قید میں ڈال دیا۔ اور اس وقت تک خادم کو قید خا نہ میں رہنا پڑا جب تک کہ وہ پورا قرض نہ ادا کر دیا۔
35 “آسما نوں میں رہنے وا لا میرا با پ تمہا رے ساتھ جس طرح سلوک کرتا ہے۔ اسی طرح اس بادشا ہ نے کیا ہے۔تم کو بھی چا ہئے کہ اپنے بھا ئیوں اور اپنی بہنوں سے حقیقت میں در گذر سے کام لو۔ ورنہ میرا باپ جو آسمانوں میں ہے تم کو کبھی بھی معاف نہ کریگا۔”
اس حوالے میں کہانی کا نقطہ یہ ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ (بادشاہ) کی رحمت کو قبول کرلیں تو وہ ہم کو معاف فرما دیتا ہے۔ یہاں دس ہزار سونے کے تھیلے اُس بادشاہ کے ایک نوکر کو دیئے گے تھے۔ اور بادشاہ اُن تھیلوں کو اپنے نوکر سے طلب کرتا ہے۔ اُس کا نوکر کچھ وقت مانگتا ہے۔ تاکہ وہ اُن تھیلوں کو بادشاہ کو واپس کرسکے۔ لیکن یہ اتنی زیادہ رقم تھی کہ نوکر بادشاہ کو کبھی بھی واپس نہیں کرسکتا تھا۔ لہذا بادشاہ نے اُس کو سارا قرض معاف کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کرتا ہے۔ اگر ہم اُس کی رحمت کو قبول کرلیں۔
لیکن جس کو معاف کردیا گیا تھا۔ اُس نے ایک اور نوکر کو پکڑا جس سے اُس کے ایک سو چاندی کے سکے آتے تھے۔ اُس نے اُس سے اپنے سکوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور اُس نوکر نے دوسرے نوکر کو وقت بھی نہ دیا۔ جب ہم ایک دوسرے کا گناہ کرتے ہیں۔ تو اس سے ہم ایک دوسرے کو غمگین کرتے اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے اس بات کا موازنہ کیا ہے۔ کہ ہمارے گناہ کسطرح اللہ تعالیٰ کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ یہ اس طرح ہے کہ ایک سو چاندے کے سکوں کا مقابلہ دس ہزار سونے کے تھیلوں سے کیا جائے۔
تاہم بادشاہ نے اپنے نوکر کے اس رویہ کو دوسرے نوکر کے ساتھ دیکھ کر اُس ناشکر نوکر کو جیل میں ڈال دیا۔ اور کہا تم اُس وقت تک یہاں سے نکل نہیں سکتے جب تک تم میری پائی پائی ادا نہیں کردیتے۔ حضرت عیسیٰ المسیح کی اس تعلیم کے مطابق اگر ہم اُن تمام گناہوں کو جن کو لوگوں نے ہمارے خلاف کیا معاف نہ کریں گے تو یہ رویہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کے خلاف ہے جو وہ ہم سے کرتا ہے۔ اس رویے سے جہنم ہمارا مقدر بن جائے گی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا سنگین ہوسکتا ہے۔
ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ہمیں معافی کی اس روح کو برقرار رکھنا ہے۔ جب کبھی کوئی ہم کو تکلیف دیتا ہے۔ تو اُس شخص کے بارے میں عذاب اور غصہ ہعروج پر ہوتا ہے۔ تو پھر ہم معافی کی اس روح کو کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیےمیں انجیل شریف میں سے مزید جاننے کی ضرورت ہے۔