سورہ ال – حاقہ سورہ — 69 حقیقت ) بیان کرتا ہے کہ کس طرح ایک صور کے پھونکے جانے سے انصاف کا انصاف کا دن ظاہر ہوگا –
پھر جب صور میں ایک مرتبہ پھونک ماری جائے گے
اور زمین اور پہاڑ (اپنی جگہوں سے) اٹھا لئے جائیں گے، پھر وہ ایک ہی بار ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دیے جا ئینگے
سو اُس وقت واقع ہونے والی (قیامت) برپا ہو جائے گےo
اور (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور یہ کائنات (ایک نظام میں مربوط اور حرکت میں رکھنے والی قوت کے ذریعے سیاہ) شگافوں پر مشتمل ہو جائے گیo
اور فرشتے اس کے کناروں پر کھڑے ہوں گے، اور آپ کے رب کے عرش کو اس دن ان کے اوپر آٹھ (فرشتے یا فرشتوں کے طبقات) اٹھائے ہوئے ہوں گےo
اُس دن تم (حساب کے لئے) پیش کیے جاؤ گے، تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گیo
69:13-18سورہ ال حاقہ
قرآن پاک (سورت 50) اس دن کو بھی بیان کرتا ہے جب اللہ کا صور بجتا ہے اور ہمارے دائیں اور بائیں طرف کے محافظ فرشتے ہمارے اعمال اور خوبیوں کا بیان کرتے ہیں ۔ یہ آیتیں پڑھتی ہیں:
اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیںo
جب دو لینے والے (فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو تحریر میں) لے لیتے ہیں (جو) دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیںo
وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہےo
اور موت کی بے ہوشی حق کے ساتھ آپہنچی۔ (اے انسان!) یہی وہ چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھاo
اور صُور پھونکا جائے گا، یہی (عذاب ہی) وعید کا دن ہےo
اور ہر جان (ہمارے حضور اس طرح) آئے گی کہ اُس کا ایک ہانکنے والا (فرشتہ) اور (دوسرا اعمال پر) گواہ ہوگاo
حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂ (غفلت) ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ تیز ہےo
اور اس کے ساتھ رہنے والا (فرشتہ) کہے گا: یہ ہے جو کچھ میرے پاس تیار ہے
50:16-23سورہ قاف
آیت 20 میں کہا گیا ہے کہ صور کا انتباہ پہلے ہی دیا جا چکا تھا (قرآن کے نازل ہونے سے پہلے) یہ کب دیا گیا تھا ؟ عیسی علیہ السلام نے یہ اس وقت دیا جب انہوں نے انجل میں پیش گوئی کی کہ ہیور کا صور زمین پر ان کی واپسی کا اعلان کرے گا:
(31)اور وہ نرسِنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرِشتوں کو بھیجے گا اور وہ اُس کے برگُزِیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اِس کنارے سے اُس کنارے تک جمع کریں گے
24:31متی
اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ قرآن کاف ہمارے دائیں اور بائیں طرف ایک فرشتہ بیان کرتا ہے جو ہمارے اعمال کو ریکارڈ کرتا ہے ۔ چونکہ اللہ ہماری رگوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے ، اس لیے انجل ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے اعمال کے یہ ریکارڈ وسیع ہیں ۔ اتنی وسیع ، حقیقت میں ، کہ وہ ‘کتابیں’ ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک شاگرد ، یوحنا نے اسے انجل کی آخری کتاب میں ایک رویا کے ذریعے بیان کیا ہے ۔ آئیے ایک نظر ڈالیں:
(11)پِھر مَیں نے ایک بڑا سفید تخت اور اُس کو جو اُس پر بَیٹھا ہُؤا تھا دیکھا جِس کے سامنے سے زمِین اور آسمان بھاگ گئے اور اُنہیں کہِیں جگہ نہ مِلی۔
20:11-15مکاشفہ
(12)پِھر مَیں نے چھوٹے بڑے سب مُردوں کو اُس تخت کے سامنے کھڑے ہُوئے دیکھا اور کِتابیں کھولی گئِیں ۔ پِھر ایک اَور کِتاب کھولی گئی یعنی کِتابِ حیات اور جِس طرح اُن کِتابوں میں لِکھا ہُؤا تھا اُن کے اَعمال کے مُطابِق مُردوں کا اِنصاف کِیا گیا۔
(13)اور سمُندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دِیا اور مَوت اور عالَمِ ارواح نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دِیا اور اُن میں سے ہر ایک کے اَعمال کے مُوافِق اُس کا اِنصاف کِیا گیا۔
(14)پِھر مَوت اور عالَمِ ارواح آگ کی جِھیل میں ڈالے گئے ۔ یہ آگ کی جِھیل دُوسری مَوت ہے۔
(15)اور جِس کِسی کا نام کِتابِ حیات میں لِکھا ہُؤا نہ مِلا وہ آگ کی جِھیل میں ڈالا گیا۔
یہ آیت اعلا ن کرتا ہے کہ جو کچھ بنی انسان نے اچھا برا کیا ہے اس کے مطابق سب کا انصاف کیا جاےگا جس طرح کتابوں میں لکھا ہوگا – اسلئے ہم نماز کے بعد ان فرشتوں کو جو دائیں اور بائیں مجود ہیں انھیں سلام کرتے ہیں ، یہ امید کرتے ہوئے کہ ہمارے اعمال کے حساب کتاب میں ہمارا کچھ فائدہ کر دینگے – مگر یہ صرف ایک تصوّر ہے ،حقیقت کچھ اور ہے —
زندگی کی کتاب
مگر غور کریں کہ ایک اور کتاب ہے جس کا نام ‘کتاب حیات’ ہے ، جو بنی انسان کے نیک و بد اعمال کی حقیقت حال بیان کرنے والی کتاب سے بلکل فرق ہے – یہ بیان کرتا ہے کی ‘جس کسی کا نام’ اس کتاب حیات میں لکھا ہوا نہیں ملیگا اسکو سیدھے آگ کی جھیل میں ڈال دیا جاےگا – یہ’ آگ کی جھیل’ دوزخ کا دوسرا نام ہے – سو یہاں تک کہ ہمارے نیک اعمال کی فہرست جسے فرشتے نے بنائی ہے بہت لمبی ہےاور ہمارے برے اعمال کی فہرست جسے دوسرے فرشتے نے بنائی ہے بہت چھوٹی ہے — اس کے با وجود بھی –اگر ہمارے نام اس ‘زندگی کی کتاب’ میں نہیں ہے تو ہم ابھی بھی دوزخ کے سزاوار ہیں – مگر یہ ‘زندگی کی کتاب’ کیا ہے ؟ اور اس کتاب میں ہمارے نام کیسے لکھے جاینگے ؟
تورات شریف اور قران شریف شریف دونوں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت آدم نے گناہ کیا تھا تو اللہ نے انکو باغ عدن سے نکال دیا تھا اور اسے فانی قرار دے دیا تھا – اس کا مطلب یہ تھا کہ (ہم سب جو اسکی اولاد ہیں) وہ زندگی کے سر چشمہ سے الگ کر دے گئے ہیں – یہی سبب ہے کہ تمام ببنی آدم فانی ہیں اور ایک دن مر جاینگے – نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح دنیا میں اسلئے آ ئے کہ ہمارے لئے اس زندگی کو بحال کرے تاکہ زندگی کی اس کتاب میں ہمارے نام لکھے جائیں جس طرح اسنے ا علا ن کیا :
(24)مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقِین کرتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حُکم نہیں ہوتا بلکہ وہ مَوت سے نِکل کر زِندگی میں داخِل ہو گیا ہے۔(
5:24یوحنا
کس طرح نبی حضرت ابراہیم نے اس زندگی کے انعام کو دیکھا اور کیوں عیسیٰ ال مسیح ہی ہمکو زندگی دے سکتے ہیں یہاں تفصیل کے ساتھ سمجھایا گیا ہے – سورہ قاف ہمکو چتونی دیتا ہے کہ :
(حکم ہوگا): پس تم دونوں (ایسے) ہر ناشکرگزار سرکش کو دوزخ میں ڈال دوo
50:24سورہ قاف
سو جبکہ ہمیشہ کی زندگی کی پیش کش کی گیئ ہے تو کیوں اس کی بابت مطلع نہیں کیا گیا ؟