Skip to content
Home » حضرت عیسیٰ المسیح ‘زندگی کے پانی’ کی پیشکش کرتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ المسیح ‘زندگی کے پانی’ کی پیشکش کرتے ہیں۔

ہم نے پچھلے مضمون میں سیکھا کہ حضرت عیسیٰ المسیح نے ہمیں کیسے اپنے دشمنوں سے رویہ رکھنا کی تعلیم دی۔ ہمارے موجودہ زمانے میں جہاں ہم سُنی اور شعیہ اور اسد کے حامیوں اور مخالفین اور اسرائیل اور فلسطین اور اسطرح عراق اور یوکرائین اوراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کونسے ملک یا شہر کے حالت کے بارے میں بات کرہے ہیں۔ آپ کو سب جگہ ایک جیسی صورتِ حال نظر آئے گی۔مختلف گروہوں کے درمیان تنازعات جہاں لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے اور ایک دوسرے کو قتل کرڈالتے ہیں۔اس طرح کے حالت نے ہماری دنیا کو شدیدغم اور پریشانی کی حالت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے تمثیل میں ہمیں سیکھایا تھا۔ کہ جنت میں داخل ہونے کا انحصار یہ ہے۔ کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں۔

لیکن کئی بار سیکھانا آسان ہوتا ہے۔ اور اُس پرعمل کرنا بلکل مختلف۔ یہاں تک کہ بہت سارے امام اور دوسرے مذاہب کے راہنما سیکھاتے بہت کچھ ہیں لیکن خود اُن باتوں پر اپنی زندگی میں عمل نہیں کرتے۔ حضرت عیسیٰ المسیح کے بارے میں کیا حقیقت پائی جاتی ہے؟ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ اُن کی ایک سامری کے ساتھ آمنا سامنا ہوگیا۔ (یاد رکھیں! اُن دنوں یہودیوں اور سامریوں کے درمیان حالت اچھے نہیں تھے۔ بلکہ جس طرح آج اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہیں) انجیل مقدس میں اس واقع کے بارے میں اس طرح لکھا ہوا ہے۔

حضرت عیسیٰ المسیح کی سامری عورت سے گفتگو

http://https://youtu.be/fNOCsJfibD0

پِھر جب خُداوند کو معلُوم ہُؤا کہ فرِیسِیوں نے سُنا ہے کہ یِسُو ع ےُوحنّا سے زِیادہ شاگِرد کرتا اور بپتِسمہ دیتا ہے۔ (گو یِسُو ع آپ نہیں بلکہ اُس کے شاگِرد بپتِسمہ دیتے تھے)۔ تو وہ یہُودیہ کو چھوڑ کر پِھر گلِیل کو چلا گیا۔ پس وہ سامر یہ کے ایک شہر تک آیا جو سُو خار کہلاتا ہے ۔ وہ اُس قِطعہ کے نزدِیک ہے جو یعقُو ب نے اپنے بیٹے یُوسف کو دِیا تھا۔ اوریعقُو ب کا کُنواں وہِیں تھا ۔ چُنانچہ یِسُو ع سفر سے تھکا ماندہ ہو کر اُس کُنوئیں پر یُونہی بَیٹھ گیا ۔ یہ چَھٹے گھنٹے کے قرِیب تھا۔ سامر یہ کی ایک عَورت پانی بھرنے آئی ۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا مُجھے پانی پِلا۔ کیونکہ اُس کے شاگِرد شہر میں کھانا مول لینے کو گئے تھے۔ اُس سامری عَورت نے اُس سے کہا کہ تُو یہُودی ہو کر مُجھ سامری عَورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟ (کیونکہ یہُودی سامرِیوں سے کِسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے)۔ یِسُو ع نے جواب میں اُس سے کہا اگر تُو خُدا کی بخشِش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کَون ہے جو تُجھ سے کہتا ہے مُجھے پانی پِلا تو تُو اُس سے مانگتی اوروہ تُجھے زِندگی کا پانی دیتا۔ عَورت نے اُس سے کہا اَے خُداوند تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کُچھ ہے نہیں اور کُنواں گہرا ہے ۔ پِھر وہ زِندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟۔ کیا تُو ہمارے باپ یعقُوب سے بڑا ہے جِس نے ہم کو یہ کُنواں دِیا اور خُود اُس نے اور اُس کے بیٹوں نے اور اُس کے مویشی نے اُس میں سے پِیا؟۔ یِسُو ع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پانی میں سے پِیتا ہے وہ پِھر پیاسا ہو گا۔ مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پِئے گا جو مَیں اُسے دُوں گا وہ ابد تک پِیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دُوں گاوہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زِندگی کے لِئے جاری رہے گا۔ عَورت نے اُس سے کہا اَے خُداوند وہ پانی مُجھ کو دے تاکہ مَیں نہ پِیاسی ہُوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا جا اپنے شَوہر کو یہاں بُلا لا۔ عَورت نے جواب میں اُس سے کہا کہ مَیں بے شَوہر ہُوں ۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا تُو نے خُوب کہا کہ مَیں بے شَوہر ہُوں۔ کیونکہ تُو پانچ شَوہر کر چُکی ہے اور جِس کے پاس تُو اب ہے وہ تیرا شَوہر نہیں ۔ یہ تُو نے سچ کہا۔ عَورت نے اُس سے کہا اَے خُداوند مُجھے معلُوم ہوتا ہے کہ تُو نبی ہے۔ ہمارے باپ دادا نے اِس پہاڑ پر پرستِش کی اور تُم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستِش کرنا چاہیے یروشلِیم میں ہے۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا اَے عَورت! میری بات کا یقِین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تُم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی پرستِش کرو گے اور نہ یروشلِیم میں۔ تُم جِسے نہیں جانتے اُس کی پرستِش کرتے ہو ۔ ہم جِسے جانتے ہیں اُس کی پرستِش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہُودِیوں میں سے ہے۔ مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچّے پرستار باپ کی پرستِش رُوح اور سچّائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لِئے اَیسے ہی پرستار ڈُھونڈتا ہے۔ خُدا رُوح ہے اور ضرُور ہے کہ اُس کے پرستار رُوح اور سچّائی سے پرستِش کریں۔ عَورت نے اُس سے کہا مَیں جانتی ہُوں کہ مسِیح جوخرِستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے ۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا۔ یِسُو ع نے اُس سے کہا مَیں جو تُجھ سے بول رہا ہُوں وُہی ہُوں۔ اِتنے میں اُس کے شاگِرد آ گئے اور تعجُّب کرنے لگے کہ وہ عَورت سے باتیں کر رہا ہے تَو بھی کِسی نے نہ کہا کہ تُو کیا چاہتا ہے؟ یا اُس سے کِس لِئے باتیں کرتا ہے؟۔ پس عَورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر میں چلی گئی اور لوگوں سے کہنے لگی۔ آؤ ۔ ایک آدمی کو دیکھو جِس نے میرے سب کام مُجھے بتا دِئے ۔ کیا مُمکِن ہے کہ مسِیح یِہی ہے؟۔ وہ شہر سے نِکل کر اُس کے پاس آنے لگے۔ اِتنے میں اُس کے شاگِرد اُس سے یہ درخواست کرنے لگے کہ اَے ربیّ! کُچھ کھا لے۔ لیکن اُس نے اُن سے کہا میرے پاس کھانے کے لِئے اَیسا کھانا ہے جِسے تُم نہیں جانتے۔ پس شاگِردوں نے آپس میں کہا کیا کوئی اُس کے لِئے کُچھ کھانے کو لایا ہے؟۔ یِسُو ع نے اُن سے کہا میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے مَوافِق عمل کرُوں اور اُس کا کام پُورا کرُوں۔ کیا تُم کہتے نہیں کہ فصل کے آنے میں ابھی چار مہِینے باقی ہیں؟ دیکھو مَیں تُم سے کہتا ہُوں اپنی آنکھیں اُٹھا کر کھیتوں پر نظر کرو کہ فصل پک گئی ہے۔ اور کاٹنے والا مزدُوری پاتا اور ہمیشہ کی زِندگی کے لِئے پَھل جمع کرتا ہے تاکہ بونے والا اور کاٹنے والا دونوں مِل کر خُوشی کریں۔ کیونکہ اِس پر یہ مِثل ٹِھیک آتی ہے کہ بونے والا اَور ہے ۔ کاٹنے والا اَور۔ مَیں نے تُمہیں وہ کھیت کاٹنے کے لِئے بھیجا جِس پر تُم نے مِحنت نہیں کی ۔ اَوروں نے مِحنت کی اور تُم اُن کی مِحنت کے پَھل میں شرِیک ہُوئے۔ اور اُس شہر کے بُہت سے سامری اُس عَورت کے کہنے سے جِس نے گواہی دی کہ اُس نے میرے سب کام مُجھے بتا دِئیے اُس پر اِیمان لائے۔ پس جب وہ سامری اُس کے پاس آئے تو اُس سے درخواست کرنے لگے کہ ہمارے پاس رہ چُنانچہ وہ دو روز وہاں رہا۔ اور اُس کے کلام کے سبب سے اَور بھی بُہتیرے اِیمان لائے۔ اور اُس عَورت سے کہا اب ہم تیرے کہنے ہی سے اِیمان نہیں لاتے کیونکہ ہم نے خُود سُن لِیا اور جانتے ہیں کہ یہ فی الحقِیقت دُنیا کا مُنجّی ہے۔  یُوحنّا 4: 1-42

سامری عورت یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ حضرت عیسیٰ المسیح اُس کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ اُن دنوں سامری اور یہودی قوم کے درمیان دشمنی پائی جاتی تھی۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے اپنی گفتگو کا آغاز پانی پینے کی درخواست سے کیا۔ آپ نے ایسا دو وجوہات کی بناء پر کیا۔ ایک آپ نے بتایا کہ آپ پیاسے ہیں اور پانی پینا چاہتے ہیں۔ دوسرا آپ (ایک نبی ہونے کی وجہ سے) جانتے تھے۔ جس سے میں پانی مانگ رہ ہووہ آپ حقیقی پانی کی پیاسی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خوشی اور اطمینان کے لیے پیاسی تھی۔ وہ یہ سوچتی تھی، کہ وہ یہ پیاس غیر قانونی طور پر دوسرے مردوں کے ساتھ رہ کر بجھالے گی۔ لہذا اُس نے بہت سارے شوہروں کررکھے تھے۔ اور جب وہ ایک نبی سے بات کر رہی تھی۔ تو اس وقت وہ جسے کے پاس رہ رہی تھی وہ اُس کا شوہر نہ تھا۔ ہر کوئی اُس کو بدکار کے طور پر دیکھتا تھا۔ اس لیے وہ کنوئیں پر پانی بھرنے کے لیے اکیلی آئی تھی۔ کیونکہ گاؤں سے کوئی عورت اُس کے ساتھ پانی بھرنے نہیں آئی تھی۔ اور یوں بھی عورتیں اس ٹھنڈے وقت پانی بھرنے آتیں تھی۔ اس عورت نے بہت سارے مردوں کے ساتھ تعلقات ہونے کی وجہ سے گاؤں کی عورتیں اس سے تعلق رکھنے سے ڈرتی تھیں۔

زبور شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ ہماری زندگیوں میں کس قدر گناہ کی پیاس پائی جاتی ہے۔ ہر ایک پیاس کو بجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج بہت سے لوگ ایسے ہیں۔ اُن کا مذہب کوئی بھی ہو۔ وہ اس پیاس کی وجہ سے گناہ میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

لیکن حضرت عیسیٰ المسیح نے اس گنہگار عورت سے کنارہ نہیں کیا تھا۔ اس کی بجائے آپ نے اُس کو بتایا کہ آپ اُس کو “زندگی کا پانی” دیں گے۔ جس کو پینے سے اُس کی یہ پیاس ختم ہوجائے گی۔ لیکن آپ عام پانی کی بات نہیں کررہے تھے۔ (جس کو پینے کے بعد پھر پیاس لگ جاتی ہے) آپ اُس دل کی تبدیلی کی بات کررہے تھے۔ جو اُس کے باطن میں واقع ہونے والی تھی۔ زبور شریف کے انبیاء اکرام نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی۔ کہ دل کو نیا کردینے والا عہد آنے والا ہے۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے اُس کو دل کو تبدیل کردینے والے عہد کی پیش کش کی۔ جس سے اُس کو ابدی زندگی کا چشمہ جاری ہو جاتا ہے۔

ایمان لانا- سچائی کا اقرار کرنا

لیکن جب ‘زندگی کے پانی’ کی پیشکش کی گئی۔ تو آپ نے اُس عورت کو ایک پریشانی میں ڈال دیا۔ جب حضرت عیسیٰ المسیح نے اُس عورت سے کہا کہ جاکراپنے شوہر کو بھلا لا۔ تو اُس کو گناہ کی شناخت کروارہے تھے۔ کہ وہ اُس کا اقرار کرلیے۔ یہ ہی وہ بات ہے جس سے ہم ہر قیمت پر بچنا چاہتے ہیں! ہم اپنے گناہوں کو ہر طریقے سے چھپانا چاہتے ہیں۔ اور اُمید کرتے ہیں کہ کوئی اس کو دیکھ نہ لے۔ یا پھر ہم اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے منطقی جواز پیش کرتے ہیں۔ آدم اور حوا نے باغِ عدن میں یہ کام کیا اور آج ہم اپنے گناہ کو چھپانا چاہتے ہیں۔ اور اُمید کرتے ہیں کہ کوئی بھی اس کو نہیں دیکھے گا۔ لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تجربہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہم کو “ابدی زندگی” کی طرف لے جاتی ہے، تو پھر ہم کو دیانتداراور اپنے گناہ کا اقرار کرنا ہوگا۔ کیونکہ انجیل شریف میں اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اگر اپنے گُناہوں کا اِقرار کریں تو وہ ہمارے گُناہوں کے مُعاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچّا اور عادِل ہے۔ 1-یُوحنّا 1:9

اس وجہ سے حضرت عیسیٰ المسیح نے اُس عورت کو بتایا کہ

“اللہ تعالیٰ روح ہے اور ضرور ہے اُس کے عابد روح اور سچائی سے اُس کی عبادت کریں۔ ۔ ۔ ۔”

‘سچائی’ سے یہاں مراد ہے کہ ہمیں سچا اور خود کو مستند کرنا ہے، ہمیں اپنی غلطیوں کو چھپانے اور اُن کے لیے عذر پیش نہیں کرنا چاہیے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اُن عبادت گزاروں سے ہرگز منہ نہیں موڑتا۔ جو اسکے پاس ایمانداری کے ساتھ آتے ہیں۔

لیکن اُس کے لیے گناہ کا اقرار کرنا نہایت مشکل تھا۔ ہم اپنی شرم کو چھپانے کے لیے عام طور پر طریقہ یہ اپناتے ہیں کہ گناہ کی بات ہورہی ہو تو ہم اُس کو مذہبی تنازعہ کا رنگ دے دیتے ہیں۔ آج کی دنیا مذہبی تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ اُن دنوں سامریوں اور یہودیوں کے درمیان عبادت کی مناسب جگہ کا تنازعہ تھا۔ یہودیوں کا کہنا تھا کہ عبادت یروشلیم میں ہونی چاہیے اور سامریوں کا ماننا تھا کہ عبادت گریزم کے پہاڑ پر ہونی چاہیے۔ اُس عورت نے سوچا شاید وہ گفتگو کو اس مذہبی تنازعہ میں بدل کر اپنے گناہ کی طرف سے توجہ کو ہٹا لے گی۔ اب وہ اپنا گناہ مذہب کی چادر کے نیچھے چھپا رہی تھی۔

ہم کتنی آسانی سے اور قدرتی طور پر اس طرح کے کام کرتے ہیں۔ خاص طور پر اگر ہم مذہبی ہیں۔ پھر ہم اس طرح کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ کہ کیسے وہ شخص غط اور میں ٹھیک ہوں۔ جبکہ دوسرے الفاظ میں ہم اہنے گناہوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ المسیح اُس کے ساتھ اس تنازع کی گفتگو میں جاری نہ کیا۔ اُنہوں نے کہا کی عبادت کے لیے جگہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کے لیے تمہاری ایمانداری اور خود کی ضرورت ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حضوری میں ہروقت اور ہر سمت میں سے آسکتی ہے ۔ لیکن اس کے لیے اُسے سچائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے آنا ہے، اس سے پہلے کہ وہ ‘زندگی کا پانی’ حاصل کرتی۔

لہذا اس کو ایک اہم فیصلہ لینا تھا۔ وہ مذہبی تنازع کو جاری رکھتی اور اپنے گناہ کو مذہب کی چادر میں چھپائے رکھتی۔ یا وہاں سے چلی جاتی۔ لیکن اُس نے اپنے گناہ کے اقرار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس قدر اُس نے قبول کیا کہ وہ اپنے گاؤں واپس گئی اور بتانے لگی کہ وہ نبی میرے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اور کس طرح میں اپنے گناہ کا اقرار کیا۔ اس نے پھر کبھی اپنے گناہ کو پھر بھی نہ چھپایا۔ اس طرح وہ ایک ‘ایماندار’ بن گئی۔ وہ پہلے بھی ایک مذہبی تھی۔ جس طرح آج ہم مذہبی ہیں۔ لیکن اب وہ اور اُس کے گاؤں میں بہت سارے لوگ ‘حقیقی ایماندار’ بن گئے۔

ایماندار بننے کے لیے صرف ذہنی طور پر درست عقیدے کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ یہ عقیدہ کی تعلیم اہم ترین ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم پر بھی یقین رکھنے کی ضرورت ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے گناہوں کو نہ چھپائیں۔ بلکل ایسا حضرت ابراہیم ؑ نے بہت عرصہ پہلے راستبازی حاصل کرنے لے لیے کیا۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین کیا۔

کیا آپ اپنے گناہ کو چھپاتے یا عذر پیش کرتے ہیں؟ کیا آپ اسے مذہبی عقیدے کی مشق سے یا مذہبی تنازع کی چادر میں چھپاتے ہیں؟ کیوں نہیں آپ اپنے خالق حقیقی جو ہمارا اللہ تعالیٰ کے سامنے آکر اپنے گناہ اور شرم کا اقرار کریں؟ اس کے بعد آپ کے اندر ایک عجیب خوشی طاری ہوجائے گئی۔ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت دلجمعی سے کریں گے اور وہ آپ سے ناراستی کو دور کردے گا۔ اس بات کو اور بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں انجیل شریف کا مطالعہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس کو جاری رکھیں گے۔ کہ ہمیں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔

ہم نے گفتگو میں سے یہ جانا۔ کہ وہ عورت نے حضرت عیسیٰ المسیح کو بطور مسیح

(مسیحا-Christ) قبول کیا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ المسیح اُن لوگوں کے ساتھ مزید دو دن رہے۔ اور اُنہوں نے اس بات کو سمجھا اور قبول کیا کہ آپ “دنیا کے نجات دہندہ” ہیں۔ شاید ہمیں ان سب باتوں کا مکمل طور پر جان نہیں سکے۔ لیکن جس طرح حضرت یحییٰ ؑ نے لوگوں کو تیار کیا اور بتایا کہ وہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرسکیں۔ یہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

“اے اللہ تعالیٰ مجھ پر رحمت فرما” ایک گنہگار کی دعا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *