Skip to content
Home » حضرت نوح ؑ کی نشانی

حضرت نوح ؑ کی نشانی

ہم شروع سے ترتیب سے جاری رکھتے ہیں (یعنی آدم/حوا اور قابیل/ہابیل)۔ تورات میں اگلے قابل ذکر نبی نوح/نوح/نوح ہیں، جو آدم کے تقریباً 1600 سال بعد زندہ رہے۔

یورپ میں بہت سے لوگ حضرت نوح ؑ کے سیلاب کی کہانی کو نا قابلِ یقین قرار دیتے ہیں ۔ لیکن پوری دنیا تلچھٹ پتھروں سے بھری پڑی ہے۔ یہ پتھر سیلاب کے دوران بنتے ہیں اور اُسی مٹی میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس سیلاب کے مادی شواہد موجود ہیں۔ لیکن حضرت نوح ؑ کا ہمارے لیے کیا نشان ہے؟ اورکس طرح یہ توجہ طلب بات ہے؟

تورات شریف اور قرآن شریف کے حوالہ جات کو تلاوت کرنے کے لیے برائے مہربانی یہاں (کلک کریں) ۔

جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو کیا ہم رحم کو جانتے ہیں؟

جب کبھی میں  یورپی لوگوں سے قیامت کے دن کی بات کرتا ہو تو اکثر مجھے یہ جواب سننے کو ملتا ہے۔” میں قیامت کے دن کے بارے میں فکر مند نہیںہو کیونکہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ قیامت کے دن میری عدالت کریں گا۔ حضرت نوح ؑکے اس حوالے میں مجھے پھر ایک منظقی سوال کرنے کی وجہ ملتی ہے۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے۔ اور جب تک وہ گمراہ نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ حضرت نوح ؑکے دور میں رحم کرتا رہا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا ( حضرت نوح ؑاور اُسکے خاندان کو نکال کر) کی عدالت کی اور ان کو تباہ کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا رحم کہا تھا؟ وہ رحم کشتی میں تھا ۔ سورہ نوح (سورہ 71 – نوح) ہمیں بتاتی ہے کہ

(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرقاب کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ تو انہوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا۔

تو پھر اس کی رحمت کہاں تھی؟ یہ حضرت نوح کی کشتی میں تھی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہمیں بتاتا گیا ہے۔

جس طرح سورة ھود 64 آیت میں لکھا ہے۔

اور (یہ بھی کہا کہ) اے قوم! خدا کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی (یعنی معجزہ) ہے۔ تو اس کو چھوڑدو کہ خدا کی زمین میں ( جہاں چاہے ) چرے اور اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب آپکڑے گا۔

اللہ تعالیٰ حضرت نوح ؑکو اپنی رحمت پیش کرنے میں استعمال کرتا ہے اور اُسکے وسیلے ایک کشتی سب کے لیے فراہم کرتا ہے۔ کوئی بھی اُس کشتی میں داخل ہوسکتا تھا اُسکی رحمت اور حفاظت کو حاصل کرسکتا تھا۔مسلئہ یہ تھا کہ تقریباً سب لوگ اُس پیغام پر ایمان نہ لائے تھے۔ انہوں نے حضرت نوح ؑ کا مذاق اڑایا اور آنے والی قیامت پر یقین نہ کیا۔ صرف وہ اسی صورت میں قیامت سے بچ سکتے تھے کہ وہ کشتی میں داخل ہو جائیں

کیا آنے والے فیصلے پر یقین کافی ہے؟

۔ قرآن شریف کا حوالہ ہمیںبتاتا ہے۔ کہ حضرت نوح ؑ کے ایک بیٹے نے نہ تو اللہ تعالیٰ پر نہ ہی آنے والی قیامت پر ایمان لایا۔ در حقیقت وہ پہاڑ پرچڑھ کر یہ دیکھا رہا تھا کہ وہ اپنی کوشش سے اللہ تعالیٰ کی قیامت سے بچ سکتا ہے۔ ( دراصل اُسکو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قیامت پر ایمان لانا ضرور تھا ) لیکن یہاں پھر ایک مسلئہ تھا ۔ کہ اُس نے اپنے عقیدے کو نہ مانا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس قیامت میں سے خود رہائی حاصل کرے گا۔ لیکن اُس کے باپ نے اُس کو بتادیا تھا۔

آج کے دن تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے کو ئی نہیں بچا سکتا لیکن وہی بچ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرے گا۔اس کے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے رحم کو ضرورت تھی نہ کہ وہ اپنی کوششوں سے قیامت سے بچتا۔ اُس کی پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش بیکار گئی۔

 تاہم نتیجہ اُس کے لیے بالکل وہی نکلا جیسا حضرت نوح ؑ پر مذاق کرنے والوں کا ہوا اور وہ ڈوب کر مر گیا۔ اگر صرف وہ کشتی میں داخل ہو جاتا تو وہ قیامت سے بچ سکتا تھا۔

اس سے ہم اس بات کا ےقین کرسکتے ہیں ۔ کہ محض اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان لانا بچنے کے لیے کافی نہیں، درحقیقت ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو قبول کرنا ہے جسکو اُس نے ہمارے لیے فراہم کیا ہے۔ اس کے برعکس کہ ہم اپنے خیالات سے کس طرح رحم حاصل کرسکتے ہیں۔

کشتی: نوح علیہ السلام اللہ کی رحمت کی نشانی ہے۔

حضرت نوح ؑ کی کشتی ہمارے لیے نشان ہے۔ یہ ایک بہت بڑی قومی علامت ہے۔ جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قیامت اور اُس سے بچ جانے کا مطلب بتاتی ہے۔ جب یہ کشتی بن رہی تھی ۔ تو اس کو دیکھنے والوں کے لیے نشان تھا کہ اللہ تعالیٰ کی قیامت اور رحمت دونوں موجود ہیں۔

لیکن یہ ہم پر ظاہر کرتا ہے۔ کہ ہم اُسکی رحمت کو اُسی طرح حاصل کرسکتے ہیں ۔ جس طرح اُس نے ہمارے لیے فراہم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت سے اس طریقہ کو تبدیل نہیں کیا اور یہ ہم پر اُسی طرح لاگو ہو گا۔

مجھے لگتا ہے کہ میں وہی کرتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں، یا جو مجھے پسند ہے، یا جس سے میں اتفاق کرتا ہوں۔ نوح (علیہ السلام) کے ذہن میں آنے والے سیلاب کے بارے میں اللہ کے انتباہ اور زمین پر اتنی بڑی کشتی بنانے کے حکم کے بارے میں یقیناً بہت سے سوالات تھے۔ وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ چونکہ وہ دوسرے علاقوں میں ایک اچھا آدمی تھا شاید اسے صندوق بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اس نے ’وہ سب‘ کیا جس کا حکم دیا گیا تھا۔ صرف وہی نہیں جو اس کے والد نے اسے بتایا تھا، وہ نہیں جو وہ سمجھتا تھا، وہ نہیں جس سے وہ آرام دہ تھا، اور یہاں تک کہ اس کے لیے کیا معنی نہیں رکھتا تھا۔ یہ ہمارے لیے ایک بہترین مثال ہے جس کی پیروی کی جائے

نجات کا دروازہ۔

تمام انبیاءاکرام ہمیں آنے والیٰ قیامت کے بارے خبردار کرتے ہیں جو آگ کے ساتھ ہوگی۔ لیکن حضرت نوح ؑ کی نشانی سے اللہ تعالیٰ ہمیں یقین کرواتا ہے کہ اُس آنے والی قیامت کے ساتھ اُسکی رحمت بھی ہوگی۔ لیکن ہمیں اُس کشتی پر نظریں جمائے رکھنا ہے۔ کیونکہ اُس کے وسیلے سے رحمت یا بچ جانے کا وعدہ ہے۔

تورات بھی ہمیں حضرت نوح ؑ کے بارے میں بتاتی ہے۔

تورات کی پہلی کتاب

16 “خدا کے حکم کے مطا بق ہر قسم کے جانوروں کے نر اور مادہ کشتی میں سوار ہو گئے۔ تب خدا وند نے کشتی کا دروازہ بند کر دیا۔

Genesis 7:16

یہ اللہ ہی تھا جس نے کشتی کے ایک دروازے کا کنٹرول اور انتظام کیا تھا نہ کہ نوح (ع)۔ جب فیصلہ آیا تو باہر کے لوگوں کی طرف سے کشتی پر ٹکرانے کی کوئی مقدار نوح کو دروازہ کھولنے کے لیے نہیں کر سکتی تھی۔ اللہ نے اس ایک دروازے کو کنٹرول کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اندر والے اس بات پر اعتماد کر سکتے تھے کہ چونکہ اللہ نے دروازے کو کنٹرول کیا ہے کوئی ہوا یا لہر اسے کھولنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ وہ اللہ کی حفاظت اور رحمت کے دروازے کے پیچھے محفوظ تھے۔

چونکہ اللہ تبدیل نہیں کرتا اس کا اطلاق آج ہم پر بھی ہوگا۔ تمام انبیاء نے خبردار کیا ہے کہ ایک اور آنے والا فیصلہ ہے۔ لیکن نوح (علیہ السلام) کی نشانی ہمیں یقین دلاتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کے ساتھ ساتھ رحمت بھی پیش کرے گا۔ لیکن ہمیں ایک دروازے کے ساتھ اس کی ’کشتی‘ کو تلاش کرنا چاہیے جو رحمت حاصل کرنے کی ضمانت دے گا۔

تب نوح نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا اور سب پاک چوپایوں اور پاک پرندوں میں سے تھوڑے سے لے کر اُس مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں۔

انبیاء کی قربانیاں

20 پھر اس کے بعد نوح نے خدا وند کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور پاک و حلال چند جانوروں اور پرندوں کو لے لیا اور اُن کو قربان گاہ پر لے جا کر قربان کر دیا۔

Genesis 8:20

یہ بات حضرت آدم ؑ اور حوا ؑ اور حضرت ہابیل ؑ اور حضرت قابیل ؑ کے قربانی کے نمونے پر ثابت آتی ہے۔ کہ کس طرح ایک جانور کے خون بہانے اور اس کی موت کے و سیلے سے ہمیں اس کا مطلب ملتا ہے۔کہ کس طرح حضرت نو ح ؑ نے قربانی کی اور اللہ تعالیٰ نے اسکو قبول کرلیا۔ یہ کتنی اہم بات ہے؟

 تورات شریف کے اگلے نبی حضرت لوط ؑکے ساتھ ہم اپنے سروے کو جاری رکھیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *