ہم نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ المیسح کے الفاظ میں کیسا اختیار تھا کہ بیمار شفا پاتے اور فطرت اُن کا کہا مانتی۔ اُنہوں نے اپنے الفاظ سے برائے راست ہمارے دلوں کی حالت کو بھی بے نقاب کردیا۔ ہمیں اس بات پر مجبور کردیا کہ ہم اپنے باطن اور ظاہری حالت کی جانچ پڑتال کرسکیں۔ ہم سب اپنی ظاہر پاکیزگی کو تو جانتے ہیں۔ اس لیے ہم نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرتے ہیں اور اس لیے ہم حلال کھانا کھاتے ہیں۔ حضرت محمدؐ نے حدیث مبارک میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔
صفائی نصف ایمان ہے . . . حدیث مسلم کتاب 002، باب 1، حدیث 0432
حضرت عیسیٰ المیسح چاہتے ہیں۔ ہم دوسرے نصف حصے کے بارے میں سوچیں۔ جو ہمارا باطن کا حصہ ہے۔ یہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم انسان دوسرے انسانوں کی ظاہری پاکیزگی اور ناپاکی کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہم سے مختلف ہے۔ اللہ باطن کو دیکھتا ہے۔ جب یہوداہ کے بادشاہوں میں سے ایک جو مذہبی طور پر راستباز نظر آتا تھا لیکن اُس کے باطن میں جو دل تھا وہ پاک نہیں تھا۔ تو اُس وقت ایک نبی اُس بادشاہ کے پاس یہ پیغام لیکر آیا۔
9 خدا وند کی آنکھیں ساری زمین پر چاروں طرف ان لوگوں کو ڈھونڈتی رہتی ہیں جو انکا فرمانبردار ہے ، تا کہ وہ ان لوگوں کے ذریعہ اپنی قوت دکھا سکے۔ آسا ! تم نے بیوقوفی کی اس لئے اب سے آئندہ تم جنگیں لڑ تے رہو گے۔” دوم تواریخ 16:9
جس طرح یہ پیغام بتایا گیا تھا۔ کہ باطنی پاکیزگی سے مراد ‘دل’ ہے۔ جس سے آپ سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں، فیصلہ کرتے فرمانبرداری کرتے یا نافرمانی، اور اسی سے آپ اپنی زبان کو کنڑول کرتے ہیں۔ زبور شریف میں انبیاءاکرام نے بتایا تھا کہ یہ ہمارے دل کی پیاس تھی۔ جس سے گناہ پیدا ہوا۔ ہمارے دلوں (باطن) کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ کہ حضرت عیسیٰ المسیح نے ہمارے ظاہری زندگی کے تنازعہ ہمارے باطن کے بارے میں تعلیم دی ہے۔ حضرت عیسیٰ المیسح کی تعلیم یہاں پر درج ہے۔
باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کی بھی صافی
(مندرجہ ذیل الفاظ میں ‘فریسیوں’ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ یہودیوں کے مذہبی استاد تھے۔ جس طرح آج امام/ مولوی ہیں۔ حضرت عیسیٰ المسیح نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آمدن کا “دسواں حصہ” دینے کی تعلیم دی۔ یہ دراصل یہودیوں کو فرضی زکوۃ ادا کرنی ہوتی تھی)۔
37 جب یسوع نے اپنی تقریر کو ختم کی تو ایک فریسی نے یسوع کو اپنے گھر پر کھا نا کھا نے کیلئے بلایا اسلئے یسوع اس کے گھر جا کر کھا نا کھا نے بیٹھ گئے۔ 38 اس نے یسوع کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ دھو ئے بغیر ہی کھا نا کھا نے بیٹھ گئے توفریسی کو تعجب ہوا۔ 39 خداوند نے اس سے جو کہا وہ یہ ہے کہ “تم فریسیو! تم تو برتن اور کٹورے کے اوپر کے حصہ کو تو صاف ستھرا رکھتے ہو جبکہ تمہارا باطن لا لچ اور برائیوں سے بھرا ہواہے۔ 40 تم بے وقوف ہو اسلئے کہ جس خدا نے تمہا رے ظا ہر کو بنایا ہے۔ وہی باطن کو بھی بنایا ہے۔ 41 اسی لئے بر تن اور کٹوروں کے اندر کی چیزیں غریبوں کو دیا کرو تب کہیں تم پوری طرح پاک ہو جا ؤگے۔
42 اے فریسیو! افسوس ہے تم پر! کیوں کہ اپنے پاس کی تمام چیزوں میں سے دسواں حصہ خدا کی راہ میں دیتے ہو تمہا رے باغ کی پیدا وار میں پو دینہ ، سداب جیسے چھو ٹے پو دوں والی فصل میں سے بھی دیتے ہو لیکن دوسروں کو انصاف بتا نے کے لئے اور خدا سے محبت کر نا بھلا بیٹھے ہو۔ پہلے تمہیں ان تمام باتوں کو کر نا ہے اور بچی ہوئی چیزوں کو نظر اندا ز کر نا ہے۔
43 اے فریسیو! تم پر بڑا ہی افسوس ہے! کہ تم یہو دی عبادت گاہوں میں تو اعلیٰ واونچی نشستوں کے اور بازاروں میں لوگوں سے عزت کے خوا ہشمند ہوتے ہو۔ 44 افسوس ہے تم پر کہ تم تو بس ا ن پوشیدہ قبروں کی طرح ہو جس پر سے لوگ بغیر سمجھے ان پر سے گذرتے ہیں۔” لوقا 11:37-44
یہودی شریعت کے مطابق اگر کوئی مردہ کو چھولیتا۔ تو وہ ناپاک ہو جاتا۔ جب حضرت عیسیٰ المسیح نے ‘قبروں’ کا ذکر کیا تھا۔ تو اُن کے مطلب تھا۔ کہ وہ قبریں بھی ناپاک ہیں۔ اس بات کو وہ جانتے تھے لیکن پھر بھی وہ اُن قبروں کے درمیان چلتے تھے۔ جس سے مراد تھا کہ وہ باطن کی پاکیزگی کو نظرانداز کررہے تھے۔ کیونکہ قبریں اندر سے تو ناپاک تھیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں۔ تو ہم پھر اس ناپاکی کی وجہ سے غیرایماندار کی حالت میں ہوتے ہیں۔ جن کو کسی قسم کی پاکیزگی کی تمیز نہیں ہوتی۔
دل مذہبی شخص کو بھی ناپاک کردیتا ہے
اس مندرجہ ذٰیل دی جانے والی تعلیم میں حضرت عیسیٰ المسیح حضرت یسعیاہ نبی کی ایک اقتباس کو پیش کرتے ہیں۔ جو 750 ق م میں ناذل ہوئے اور اُن کی کتاب زبور شریف میں شامل ہے۔
(یہاں پر حضرت یسعیاہ نبی کے بارے میں معلومات موجود ہے)
خدا کا حکم اور لوگوں کے اصول
15 تب چند فریسی اور معلمین شریعت یروشلم سے یسوع کے پاس آئے اور کہا، 2 “تمہا رے ماننے وا لے ہما رے اجداد کے اصول وروا یات کی اطاعت کیوں نہیں کرتے ؟ اور پوچھا کہ تیرے شاگرد کھا نا کھانے سے قبل ہاتھ کیوں نہیں دھوتے ؟”-
3 یسوع نے کہا، “تم اپنے اصولوں پر عمل کر نے کے لئے خدا کے احکام کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو ؟۔ 4 خدا کا حکم ہے کہ تم اپنے ماں باپ کی تعظیم کرو۔ [a] دوسرا حکم خدا کا یہ ہے کہ اگر کو ئی اپنے باپ یا ا پنی ماں کو ذلیل و رسوا کرے تو اسے قتل کر دیا جا ئے۔ [b] 5 لیکن اگر ایک آدمی اپنے ماں باپ کو یہ کہے کہ تمہا ری مدد کر نا میرے لئے ممکن نہیں کیوں کہ میرے پاس ہر چیز خدا کی بڑا ئی کے لئے ہے تو پھر ماں باپ کی عزت کر نے کی کو ئی ضرورت نہیں۔ 6 تم اس بات کی تعلیم دیتے ہو کہ وہ اپنے ماں باپ کی عزت نہ کرے اس صورت میں تمہا ری روایت ہی نے خدا کے حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ 7 تم سب ریا کار ہو۔یسعیاہ نے تمہارے بارے میں صحیح کہا ہے وہ یہ کہ:
8 “یہ لوگ تو صرف زبانی میری عزت کرتے ہیں۔
لیکن ان کے دل مجھ سے دور ہیں۔
9 اور انکا میری بندگی کرنا بھی بے سود ہے۔
انکی تعلیمات انسانی اصولوں ہی کی تعلیم دیتے ہیں۔ [c]10 یسوع نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا، “میری باتوں پر غور کرو اور انہیں سمجھو۔ 11 کوئی آدمی اپنے کھا نے پینے والی چیزوں سے نا پاک و گندا نہیں ہو تا بلکہ اس نے کہا کہ اس کے منھ سے جو بھی جھوٹے کلمات نکلے وہی اس کو ناپاک کر دیتے ہیں۔”
12 تب شاگرد یسوع کے قریب آکر اس سے کہنے لگے، “کیا تم جانتے ہو کہ تمہاری کہی ہو ئی بات کو فریسی نے سن کر کتنا برا ما نا ہے ؟”
13 یسوع نے جواب دیا، “آسمانوں میں رہنے والے میرے باپ نے جن پودوں کو نہیں لگا یا وہ سب جڑ سمیت اکھاڑ دیئے جائیں گے۔ 14 اور کہا کہ فریسی کو پریشان نہ کرو اسے اکیلا رہنے دو وہ خود اندھے ہیں اور دوسروں کو راستہ دکھا نا چاہتے ہیں۔ اسلئے کہ اگر اندھا اندھے کی رہنمائی کرے تب تو دونوں گڑھے میں گر جائیں گے۔”
15 تب پطرس نے کہا، “جو تو نے پہلے لوگوں سے کہا ہے اس بات کی ہم سے وضاحت کر۔
16 یسوع نے ان سے کہا، “کیا تمہیں اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ؟”۔ 17 ایک آدمی کے منھ سے غذا پیٹ میں داخل ہو تی ہے۔ اور جسم کی ایک نالی سے وہ باہر جاتی ہے۔ اور یہ بات تم سب کو معلوم ہے۔ 18 لیکن جو ایک آدمی کے منھ سے بری باتیں نکلتی ہیں وہی چیزیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ 19 اور آدمی کے دل سے برے خیالات قتل زناکاری اور حرامکاری ،چوری ،جھوٹ اور گالیاں نکل آتی ہیں۔ 20 یہ تمام باتیں آدمی کو ناپاک بنا دیتی ہیں۔ اور کہا، “کھا نا کھا نے سے پہلے اگر ہاتھ نہ دھو یا جائے تو اس سے آدمی ناپاک نہیں ہوتا۔
متّی 15:1-20
یہودیوں کے استادوں کے اس آمنے سامنے میں حضرت عیسیٰ المسیح نے بیان کی ہم “انسانوں کی روایات” کو اللہ تعالیٰ کی کتاب سے زیادہ ترجی دیتے ہیں۔ آپ کے دور میں یہودی راہنما اپنے والدین کے فرائض کو نظرانداز کردیتے تھے اور کہتے تھے ہم آپ لوگوں کی خدمت نہیں کرسکتے کیونکہ ہم مذہبی فرائض ادا کرنے ہیں۔
آج ہم باطنی صافی کے بارے میں بھی اس ایک مسئلہ کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے پیدا ہونے والی ناپاکی/برائی سے بہت زیادہ پریشان ہے۔ یہ ناپاکی روزِ حشر والے دن ہماری بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر اس کو اپنے دلوں سے صاف نہ کیا گیا۔
ظاہری خوبصورت لیکن باطن میں بدکار
25 “اے معلمین شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے براہے۔تم ریا کا ر ہو۔ تم اپنے بر تن و کٹوروں کے با ہری حصے کو دھو کر صاف ستھرا تو کر تے ہو لیکن انکا اندرونی حصہ لا لچ سے اور تم کو مطمئن کر نے کی چیزوں سے بھرا ہے۔ 26 اے فریسیو تم اندھے ہو پہلے کٹو رے کے اندرونی حصہ کو اچھی طرح صاف کر لو۔ تب کہیں جا کر کٹو رے کے با ہری حصہ حقیقت میں صاف ستھرا ہوگا۔
27 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہا رے لئے بہت برا ہے! تم ریا کا ر ہو۔تم سفیدی پھرائی ہو ئی قبروں کی ما نند ہو۔ ان قبروں کا بیرونی حصہ تو بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔لیکن اندرونی حصہ مردوں کی ہڈیوں اور ہر قسم کی غلاظتوں سے بھرا ہو تا ہے۔ 28 تم اسی قسم کے ہو۔ تم کو دیکھنے والے لوگ تمہیں اچھا اور نیک تصور کرتے ہیں۔ لیکن تمہارا باطن ریا کاری اور بد اعمالی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ متّی 23:25-28
اس گفتگو میں حضرت عیسیٰ المسیح سب کچھ بیان کردیتے ہیں۔ جس کو ہم نے خود دیکھا ہے۔ مندرجہ ذیل صافی کو ہم عام ایمانداروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے بہت سے ایماندار آج بھی لالچ اور حوس سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں تک مذہبی اہم شخصیات کا یہ حال ہے۔ باطن کی پاکیزگی بہت زیادہ لازمی ہے۔ لیکن یہ بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے باطن کے بارے میں بڑی احتیاط کے ساتھ عدالت کرے گا۔ لہذا مسئلہ خود ہی کھڑا ہوجاتا ہے۔ ہم اپنے دلوں کو کیسے صاف/پاک کرسکتے ہیں تک ہم روز عدالت والے دن اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں داخل ہوسکیں؟ ہم انجیل شریف میں سے اس سوال کے جواب کو پانے کے لیے مطالعہ جاری رکھیں گے۔