پچھلی نشانی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک بیٹا عطا کرے گا۔ اور اللہ نے اپنا وعدہ یاد رکھا۔ حقیقت میں تورات اس بات کو جاری رکھتی ہے۔ اور بیان کرتی ہے۔ کہ کس طرح حضرت ابراہیم نے دو بیٹے حاصل کئے۔ تورات کی پہلی کتاب پیدائش کے 16 باب ہمیں بتاتا ہے۔ کہ حضرت ہاجرہ سے حضرت اسمعیل پیدا ہوئے۔ اور پھر پیدائش کے 21 باب ہمیں بتاتا ہے۔ کہ 14 سال بعد حضرت سارہ سے حضرت اضحاق پیدا ہوئے۔ خاندان میں دونوں خواتین کے درمیان جلد جھگڑا شروع ہوگیا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو ایک دوسری جگہ بیج دیا۔ اس واقعہ کا بیان آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ (کلیک کریں) کہ اللہ تعالٰی نے کیسے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل کو برکت دی۔
حضرت ابراہیم کی قربانی بنیادی طور پر عیدالااضٰحی ہے
اب حضرت ابراہیم کے گھرانے میں ایک بیٹا رہ گیا تھا اور حضرت ابراہیم کا سامنا ایک بڑھے امتحان سے ہوا۔ لیکن اس امتحان کے وسیلے ہم اللہ تعالٰی کی سیدھی راہ کو سمجھ سکتے ہیں۔ آپ قرآن شریف اور تورات شریف سے ان حوالہ جات کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ جن میں حضرت ابراہیم کی قربانی کا ذکر ہے۔ کتاب مقدس میں سے یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ کیوں عیدالاضحی منائی جاتی ہے؟ لیکن یہ ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بھی ہے۔
ہم حوالہ جات میں پڑھ سکتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے لیے ایک امتحان تھا۔ لیکن یہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ حضرت ابراہیم کا ایک نبی ہونے کی حیثیت سے یہ امتحان ہمارے لیے ایک نشان ہے۔ ہم اس میں سے سیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہماری فکر کرتا ہے۔ اس نشان کا کیا مطلب ہے؟ برائے مہربانی نوٹ کریں۔ حضرت ابراہیم نے اُس جگہ کا نام کیا رکھا تھا؟ جہاں اُس کا بیٹا قربان ہونا تھا۔ تورات میں سے یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
پیدائش 22: 13-14
اور ابراہیم نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابراہیم نے جاکر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا۔
اور ابراہیم نے اُس مقام کا نام یہوواہ یری رکھا چنانچہ آج تک یہ کہاوت ہے کہ خداوند کے پہاڑ پر مہیا کیا جائے گا۔
نوٹ! حضرت ابراہیم نے جو نام اُس جگہ کا رکھا۔ وہ یہ تھا ” خدا مہیا کریں گا ” یہ نام کس زمانہ کو ظاہر کرتا ہے؟ زمانہ حال ، زمانہ ماضی، یا زمانہ مستقبیل کو؟ یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ زمانہ مستقبیل کو ظاہر کرتا ہے۔ اور بھی واضح ہو جاتا ہے جب حضرت موسٰی نے اس کو 500 سال بعد درج کیا۔ تو اس کو اسی طرح لکھا کہ ” مہیا کیا جائے گا ” اس کو زمانہ مستقبیل میں میں ہی لکھا گیا اور یہ مستقبیل کی ہی بات کرتا ہے۔ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم یہاں مینڈھے کی بات کررہے ہیں۔ جو ان کے بیٹے کی جگہ قربان ہوا۔ لیکن جب حضرت ابراہیم نے اس جگہ کو نام دیا تو مینڈھا اس سے پہلے قربان ہو چکا تھا۔ اگر حضرت ابراہیم مینڈھے کی بات کر رہے تھے۔ جو قربان ہوا اور نذر کی قربانی کے طور پر جلایا جا چکا تھا۔ تو پھر اس کا یہ نام ہونا چاہیے تھا ” خدا نے مہیا کیا ” زمانہ ماضی استعمال ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ اس مینڈھے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جو پہلے ہی اُن کے بیٹے کی جگہ قربان ہو چکا۔ توپھر یہ کہاوت اس طرح ہونی چاہیے تھی۔ ” آج تک یہ کہاوت ہے کہ خداوند کے پہاڑ پر مہیا کیا گیا تھا ” لیکن حضرت موسٰی اور حضرت ابراہیم دونوں نے زمانہ مستقبیل ہی کو استعمال کیا۔ اس طرح وہ اس مینڈھے کے بارے میں نہیں سوچتے جو پہاڑ پر قربان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے تب وہ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اگر اس کے بارے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم کو شروع میں پہلا نشان دیا تھا۔
پیدائش 22:2
تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاوں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔
یہ واقعہ موریاہ کے پہاڑ پر واقع ہوا۔ یہ پہاڑ کہاں ہے؟ 2000 ق م یعنی حضرت ابراہیم کے وقت میں یہ پہاڑ ایک بیابان تھا۔ ایک ہزار سال بعد 1000 ق م میں حضرت داود نے یروشلیم شہر آباد کیا۔ اور بعد میں حضرت داود کے بیٹے حضرت سلیمان نے ہیکل کی تعمیر کی۔ ہم تورات میں اس کے بارے پڑھ سکتے ہیں۔
2 تواریخ 3:1
اور سلیمان یروشیلم میں کوہ موریاہ پر جہاں اس کے باپ داود نے رویت دیکھی اسی جگہ جسے داود نے تیاری کرکے مقرر کیا یعنی ارنان یبوسی کے کھلیہان میں خداوند کا گھر بنانے لگا۔
دوسرے الفاظ میں ” موریاہ کا پہاڑ ” حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی کے زمانہ میں بیابان تھا لیکن 1000 ق م میں حضرت داود اور حضرت سلیمان کے زمانہ میں یہ اسرائیلیوں کا دارلحکومت بن گیا تھا۔ جہاں انہوں نے خدا تعالٰی کے لیے ہیکل تعمیر کی اور آج یہ یہودیوں کی پاک ترین جگہ ہے۔
موریہ کے پہاڑ کو حضرت ابراہیم نے منتخب نہیں کیا تھا بلکہ خدا پاک نے منتخب کیا تھا۔ جیسا کہ قرآن شریف (سورہ72 جن) میں اس کی وضاحت کرتا ہے۔
اور یہ کہ مسجدیں خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو (سورة الجن ۷۲: آیت ۱۸
عبادت گاہ کا انتخاب خدا پاک نے کیا ہے۔ ہم جان چکے ہیں کہ اس جگہ کو کیوں خدا پاک نے چنا تھا۔
حضرت عیٰسی المسیح کی موریا کے پہاڑ پر مصلوبیت
یہاں پر ہم حضرت عیٰسی المسیح اور انجیل شریف کا برائے راست تعلق پاتے ہیں۔ہم اس تعلق کو اس وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہم حضرت عیٰسی المسیح کے ایک خطاب کو جان جاتے ہیں۔ حضرت عیٰسی المسیح کو بہت سارے خطبات سے نوازا گیا۔ لیکن سب سے مشہور خطاب ” مسیح ” ہے۔ لیکن عیٰسی مسیح کو ایک اور بھی خطاب دیا گیا جو مشہور نہیں ہے۔ لیکن اہم ترین ضرور ہے۔ ہم جب یوحنا کی انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو حضرت یحٰیی ( یوحنا بپتسمہ دینے والا) یہ کہتا ہے۔
یوحنا 1: 29-30
دوسرے دن اس نے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خدا کا برہ ہے جو دنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ یہ وہی ہے جس کی بابت میں نے کہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آتا ہے جو مجھ سے مقدم ٹھہرا ہے کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔
ایک اہم لیکن کم مشہور خطاب حضرت عیٰسی کو حضرت یحیٰی نے دیا۔ ” خدا کا برۃ “۔ اب زرا حضرت عیٰسی کی زندگی کے آخری ایام پر غور کریں۔کہاں اُن کو گرفتار اور مصلوب کیا گیا؟ یہ سارا واقع یروشلیم میں ہوا۔ ( جو موریاہ کے پہاڑ پر واقع ہے)
لوقا 23:7
اور یہ معلوم کرکے کہ ہیرودیس کی عمل داری کو ہے اُسے(حضرت عیٰسی) ہیرودیس کے پاس بھیجا کیونکہ وہ (ہیرودیس) بھی اُن دِنوں یروشلیم میں تھا۔
دوسرے الفاظ میں گرفتاری اور مصلوبیت یروشلیم ہی میں واقع ہوئی (یعنی موریاہ کے پہاڑ پر)۔ زرا واپس حضرت ابراہیم کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔ کیوں حضرت ابراہیم نے اُس جگہ کا نام زمانہ مستقبیل میں رکھا؟ ” خدا مہیا کرے گا ” حضرت ابراہیم ایک عظیم نبی تھا اور جانتا تھا کہ مستقبیل میں خدا یہاں مہیا کرے گا۔ اور اس طرح حضرت ابراہیم کا بیٹا قربان ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اور اس کی جگہ ایک مینڈھا قربان ہو جاتا ہے۔ 2000 ہزار سال بعد حضرت عیٰسی مسیح کو ” خدا کا برہ ” کہا جاتا ہے۔ اُس کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ٹھیک اُسی جگہ پر مصلوب کیا جاتا ہے۔
قربانی حضرت ابراہیم کے بیٹے کے لیے فدیہ تھا موت سے بچ جانے کا
کیا یہ ہمارے لیے اہم ہے؟ میں غور کرتا ہوں کہ کیسے حضرت ابراہیم کا نہ نشان تکمیل کو پہنچا۔ قرآن شریف کی اس آیت میں حضرت ابراہیم کے بارے میں یوں لکھا ہے۔
سورة الصَّافات 37:107
[جالندھری] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا
فدیہ کا کیا مطلب ہے؟ فدیہ دینے کا مطلب ہے کہ کوئی ایک کسی قیدی کا جرمانہ ادا کردے اور اُس کو اُس قید سے رہائی دلا دے۔ حضرت ابراہیم کے لیے فدیہ کا مطلب ہے کہ وہ کسی کے قیدی تھے۔ بیشک وہ ایک عظیم اوربڑے نبی بھی تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس بات میں قیدی تھے۔ حضرت ابراہیم کی قربانی کا واقعہ ہمیں بتابا ہے۔ کہ وہ موت کے قیدی تھے۔ ہم نے آدم کی نشانی میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو فانی بنایا ہے۔ (انبیااکرام کو بھی) اب وہ موت کے غلام تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم کے اس واقع میں مینڈھا قربان ہوگیا۔ اگر آپ حضرت آدم، حضرت قابیل، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی پہلی نشانی کا سلسلسے سے مطالعہ کریں۔ تو آپ جانیں گے کہ اِن انبیا اکرام نے جانوروں کی قربانی کی باربار مشق کی۔ وہ جانتے تھے کہ اس قربانی کے باعث ہم بچ جاینں گے۔ اور ہم دیکھ سکتے ہیں یہ عمل ہمیں مستقبیل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو حضرت عیٰسی کو خدا کا برہ پیش کرتا ہے۔
قربانی ہمارے لیے برکت
موریاہ کے پہاڑ پر مینڈھے کی قربانی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اور اس کے آخر میں اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم کو بتایا تھا۔
پیدائش 22:18
اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی۔
اگر آپ زمین کی کسی ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ وعدہ آپ کے لیے ہے۔ کیونکہ اس وعدہ کے باعث آپ اللہ تعالٰی سے برکت حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا یہ قابلِ قدر بات نہیں؟ کیسے حضرت ابراہیم کی قربانی کا تعلق حضرت عیٰسی مسیح سے اور آج یہ تعلق آپ کے ساتھ ہے؟ اور کیوں ؟ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے لیے فدیہ دیا گیا اور آج شائد ہمارے لیے یہ ایک نشان ہے۔ لیکن اسکا مکمل جواب ہے ۔ کہ لیے ہم حضرت موسٰی کے نشان میں جاری رکھیں گے ( ان کے دو نشان ہیں) اور یہ ہمارے سوال کا جواب بڑے واضع انداز میں دیں گے۔
لیکن اس وقت یہ بتانا چاہتا ہوں کہ لفظ ” نسل ” یہاں پر واحد ہے۔ یہ نسلیں نہیں ہے۔ جس کا مطلب پشتیں یا قومیں ہے۔ حضرت ابراہیم سے برکت کا وعدہ ایک نسل سے ہے۔ جو واحد ہے۔ واحد کا مطلب ایک ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں بہت سارے لوگ، گروہ ، اور نہ ہی اُنہیں ہے۔ حضرت موسٰی کا فسح کا نشان اس کو سمجھنے میں مدد دے گا۔