میں کبھی پوچھتا ہوں کہ کیوں ایک انجیل(بائیبل مقدس) میں چار مختلف اناجیل ہیں جو چار مختلف لوگوں نے تحریر کی ہیں؟ کیا اس میں متضاد پایا جاتا ہے اور کیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے؟
بائیبل مقدس اس کے بارے میں لکھا ہے۔
16 سب صحیفے خدا کی دی ہو ئی ہیں یہ کار آمد ہیں اور ان تعلیمات سے تم لوگوں کو بتا سکتے ہو کہ ان کی زندگی میں کیا برائیاں ہیں یہ ان کی غلطیوں کو درست کرنے میں فائدہ مند ہیں کہ کس طرح صحیح زندگی میں رہ سکتے ہیں۔ 17 وہ جو خدا کی خدمت کرتا ہے ان صحیفوں کو استعمال کرتا ہے اور پوری طرح ہر چیز کے لئے تیار ہو تا ہے اور ساری چیزیں وہ ضروریات کے مطا بق ہر ایک نیک کام سے کرتا ہے۔
2 Timothy 3:16-17
لہذا بائبل مقدس کا دعوہ کرتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ہی کتابِ مقدس کا مصنف ہے انسانوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک روح کے وسیلے سے اس کو تحریر کیا ہے۔ اس پر قرآن پوری طرح متفق ہے۔ اس پوسٹ میں ہم نے بڑھے غورسے دیکھا ہے۔“قرآن شریف تحریفِ بائیبل کے بارے میں کیا کہتا ہے؟”
قرآن میں آدم: ایک آدم مگر دو سورتیں
لیکن کس طرح ایک انجیل میں چار اناجیل کو سمجھ سکتے ہیں؟ قرآن شریف میں اکثر ایک واقعہ کے لیے کئی حصے مختلف جگہ پر درج ہیں۔ جب ہم ان تمام حصوں کو اکٹھا پڑھتے ہیں تو واقعہ کی مکمل تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
مثال کے طور پر:حضرت آدم ؑ کا نشان کے بارے میں19-7:26 سورۃ الاعراف جنت کے واقعہ کا ذکر ہوا ہے۔ لیکن اسکا ذکر سورۃ ٰطہٰ میں 121-123: 20 میں بھی ذکر ہوا ہے۔ لیکن اس دوسرے حوالے میں ہم اور زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھتے ہیں۔ کہ حضرت آدم ؑ کو گمراہ کیا گیا تھا۔ جسکا ذکر سورۃ الاعرف میں نہیں ملتا۔ ان دونوں حوالہ جات کو پڑھنے کے بعد ہم حضرت آدم ؑ کے واقعہ کو بہتر اور مکمل طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ اور ان دونوں حوالہ جات کا یہی مقصد تھا کی ایک دوسرے کی تکمیل کریں۔
ایک انجل
لہٰذا جب ہم انجیل کے مواد پر بحث کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ اس کا حوالہ واحد میں کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک ہی انجیل ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ نیا عہد نامہ ایک واحد انجیل کا حوالہ دیتا ہے (ضمیر ‘the’ اور ‘it’ استعمال کرکے)۔
پو لُس کا اختیار خدا کی طرف سے ہے
11 اے بھا ئیو! میں تمہیں معلوم کرانا چاہتا ہوں کہ میں نے جس انجیل کی تعلیم تمہیں دی ہے اس کو انسان نے نہیں بنایا۔ 12 اور اس انجیل کی تعلیم کسی انسان کی نہیں ہے۔ کسی انسان نے اس انجیل کے متعلق مجھے نہیں سکھا یا۔ یسوع مسیح نے مجھے یہ دیا ہے اسی نے مجھے انجیل بتا ئی جسے کہ میں لوگوں سے کہوں۔
13 تم میری گزشتہ زندگی کے متعلق سن چکے ہو کہ میں یہودی مذہب سے تھا میں خدا کی کلیسا کے لوگوں کو بہت ستا یا تھا اور کلیسا کو تباہ کر نے کی بہت کو شش کی تھی۔
Galatians 1:11-13
قرآن پاک بھی انجیل سے مراد واحد میں ہے (دیکھئے قرآن میں انجیل کا نمونہ)۔ لیکن جب ہم گواہوں یا انجیل کی کتابوں کی بات کرتے ہیں تو چار ہیں۔ دراصل تورات میں صرف ایک گواہ کی گواہی سے کسی معاملے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کے قانون میں قانونی فیصلوں کے لیے کم از کم دو یا تین گواہوں کی ضرورت تھی۔
15 “اگر کسی آدمی پر اُصول کے خلاف کچھ کرنے کا مقدمہ ہے تو ایک گواہ اسے پیش کرنے کے لئے کا فی نہیں ہو گا کہ وہ قصوروار ہے۔ اس نے سچ مُچ میں غلطی کی ہے یہ ثابت کرنے کے لئے دو یا تین گواہ ہونا چا ہئے۔
Deuteronomy 19:15
چار گواہوں کے بیانات فراہم کر کے انجیل قانون کی کم از کم ضروریات سے تجاوز کر گئی۔