سورة المدثر (سورة 74 – ( اس سورة میں پیغبر قیامت کے دن کا نظارہ بیان کرتے ہیں۔
اور اُس دن کے بارے میں انتباہ پیش کررہے ہیں۔
اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو
اُٹھو اور ہدایت کرو
اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو
سورة المدثر 74: 1-3جب صور پھونکا جائے گا
وہ دن کا مشکل دن ہوگا
یعنی) کافروں پر آسان نہ ہوگاسورة المدثر 74: 8-10
(غیر ایماندار سورة 109 – الکافرون)
اس سورة میں کافروں کے مختلف راہوں کا بیان کیا گیا ہے۔
(اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو! جن (بتوں) کو تم پوچتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا اور جس (خدا) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے اور (میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پ اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے (معلوم ہوتے) ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر ﴿۶
سورة الکافرن 109: 1-6
زبور شریف کے اختتام پر حضرت الیاس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
جس طرح سورة المدثر اور سورة الکافرن بیان کرتا ہے۔
لیکن زبور شریف ہم کو مسقیبل میں آنے والے ایک نبی کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ حضرت الیاس کی مانند ہوگا اور ہمارے دلوں کو تیار کرے گا۔ ہم اُس نبی کو ہم حضرت یحییٰ کے طور پر جانتے ہیں۔
ہم نے “خادم کی نشانی” میں مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ خادم کے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اُس کے آںے کا وعدہ کو ایک خاص سوال سے معلوم کیا جاتا ہے۔ جب اُس نے یسعاہ 53 باب کے شروع میں ایک سوال کیا جاتا ہے۔
ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟ ( یسعیاہ 53: 1 الف)
حضرت یسعیاہ اس بات کی پیش گوئی کررہا تھا کہ آنے والے خادم پر لوگ اتنی جلدی ایمان نہیں لائیں گے۔ یہاں پر مسئلہ یہ نہیں کہ پیغام میں یا پیش گوئی یا نشانی ٹھیک طور پر بیان نہیں ہوئیں۔ اور وہ اُس کے نام کے ساتھ اُس کے وقت کے“سات چکر” کی بھی بات کرتا ہے کہ اُس کو زندوں کی زمین پر سے کاٹ ڈالا جائے گا۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ بہت زیادہ پیشن گوئیاں نہیں تھیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کہ لوگوں کے دل سخت ہوچکے تھے۔ لہذا کسی شخص کو خادم کی آمد سے پہلے آنے کی ضرورت تھی۔ تاکہ وہ لوگوں کو اُس کی آمد کے لیے تیار کرے۔ اس لیے حضرت یسعیاہ نے یہ پیغام دیا کہ خادم کے آنے سے پہلے ایک شخص آئے گا۔ اُس نے یہ پیش گوئی کو زبور کی کتاب میں لکھ ہوئی ہے۔ جو درج ذیل ہے۔
3پُکارنے والے کی آواز!
بیابان میں خُداوند کی راہ درُست کرو ۔
صحرا (بیابان) میں ہمارے خُدا کے لِئے شاہراہ ہموار کرو۔
4ہر ایک نشیب اُونچا کِیا جائے
اور ہر ایک پہاڑ اورٹِیلا پست کِیا جائے
اور ہر ایک ٹیڑھی چِیز سِیدھی اورہر ایک ناہموار
جگہ ہموار کی جائے۔
5اور خُداوند کا جلال آشکارا ہو گا
اور تمام بشر اُس کودیکھے گا
کیونکہ خُداوند نے اپنے مُنہ سے فرمایا ہے۔ یسعیاہ 40: 3-5
حضرت یسعیاہ نے کسی ایک کے آنے کی پیش گوئی کی۔ جو بیابان (صحرا) میں خداوند کی راہ تیار کرے گا۔ وہ ایک رکاوٹ کو ختم کرے گا۔ تاکہ خداتعالیٰ کا جلال نازل ہو۔ لیکن حضرت یسعیاہ نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ کس طرح ہوگا۔
حضرت یسعیاہ، حضرت ملاکی، اور حضرت حزقی ایل کا اور کچھ دوسرے انبیاءاکرام کا تاریخی ٹائم لائن
زبور شریف کی کتاب کا آخری نبی حضرت ملاکی ہے۔
حضرت یسعیاہ نبی کے 300 سال بعد حضرت ملاکی نبی آیا۔ جس نے زبور شریف کی آخری کتاب لکھی۔ اُنہوں نے حضرت یسعیاہ نبی کی پیشن گوئی کی وضاحت اپنی کتاب میں بیان کی۔ وہ اس طرح لکھتے ہیں۔
دیکھو مَیں اپنے رسُول کو بھیجُوں گا اور وہ میرے آگے راہ درُست کرے گا اور خُداوند جِس کے تُم طالِب ہو ناگہان اپنی ہَیکل میں آ مَوجُود ہو گا ۔ ہاں عہد کا رسُول جِس کے تُم آرزُومند ہو آئے گا ربُّ الافواج فرماتا ہے۔ ملاکی 3: 1
یہاں پھر خداوند کی راہ تیار کرنے والے کی پیش گوئی ہورہی ہے۔ جب وہ راہ تیار کرچکے گا۔عہد کا رسول (خادم) آموجود ہوگا۔ حضرت ملاکی کس عہد کی یہاں بات کر رہیں ہیں؟ آپ کو یاد ہوگا کہ حضرت یرمیاہ نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ایک نیا عہد باندھے گا، جو تمہارے دلوں پر لکھا جائے گا۔ صرف اُس وقت ہم اپنی پیاس بجھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ جو ہمیں ہمیشہ گناہ کی طرف کھیچتی ہے۔ اس عہد کی بات حضرت ملاکی بات کررہا تھا جب وہ آنےوالے کی راہ کی تیاری کی بات کرتا ہے۔ حضرت ملاکی پھر اس کی کتاب کے آخری پیراگراف کو زبور شریف کی کتاب کا اختتام کردیتا ہے۔ اس آخری پیراگراف میں وہ مستقبیل کے بارے میں یوں لکھتا ہے۔
5دیکھو خُداوند کے بزُرگ اور ہَولناک دِن کے آنے سے پیشتر مَیں ایلیّاہ نبی کو تُمہارے پاس بھیجُوں گا۔ 6اور وہ باپ کا دِل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائِل کرے گا ۔ مبادا مَیں آؤُں اور زمِین کو ملعُون کرُوں۔ ملاکی 4: 5-6
حضرت ملاکی کا کیا مطلب تھا کہ خداوند کے روزِعظیم آنے سے پہلے “ایلیاہ ” آئے گا۔ حضرت ایلیاہ کون ہے؟
حضرت ایلیاہ زبور شریف کی کتاب کا ایک اور نبی ہے جس کے بارے میں ہم نے مطالعہ نہیں کیا۔ ( ہم زبور شریف کے تمام انبیاءاکرام کا مطالعہ نہیں کرسکتے۔ اس طرح یہ حصہ بہت لمبا ہوجائے گا۔ لیکن آپ اس ٹائم لائن میں دیکھ سکتے ہیں) حضرت ایلیاہ 850 ق م کے دور میں نازل ہوئے تھے۔ وہ بیابان میں رہتے اور جانوروں کے چمڑے کا لباس اور جنگلی خوراک کھانے میں مشہور تھا۔ شاید آپ کو تھوڑا عجیب سا لگے۔ حضرت ملاکی نے کچھ اس طرح لکھا کہ جو شخص نئے عہد کی راہ تیار کرے گا۔ وہ حضرت ایلیاہ کی طرح کا ہوگا۔ اور اس بیان کے بعد زبور شریف مکمل ہوجاتا ہے۔ یہ زبور شریف کا آخری حوالہ ہے جو 450 ق م میں لکھا گیا۔ تورات شریف اور زبور شریف آنے والی شخصیت کے ساتھ بھرے پڑے ہیں۔ آئیں ہم اس بات کا جائزہ لیں۔
تورات شریف اور زبور شریف کے وعدوں کا جائزہ
- حضرت ابراہیم کے ساتھ “قربانی کی نشانی” میں یہ بیان کیا گیا تھا۔ کہ موریاہ کے پہاڑ اُن سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “مہیا کیا جائے گا” یہودی زبور شریف کے اختتام تک اس وعدے کی تکمیل کا انتظار کر رہے تھے۔
- حضرت موسیٰ سے کہا گیا تھا۔ کہ یہ ‘فسح” اسرائیلیوں کے لیے ایک نشانی تھی۔ اسرائیلی اس فسح کو اپنی ساری تاریخ میں مناتے آئے تھے۔ لیکن وہ یہ بھول گے تھے۔ کہ یہ ایک نشانی تھی۔ یہ اُس کی طرف اشارہ تھا جو ابھی تک پورا نہ ہوا تھا۔
- حضرت موسیٰ نے تورات شریف میں بتایا تھا۔ کہ ایک نبی آئے گا۔ جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ “میں اپنا کلام اُس کے منہ میں رکھو گا” اللہ تعالیٰ نے اُس آنے والے بنی کے بارے میں ایک وعدہ میں بیان کیا تھا۔ “اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جِن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے تو مَیں اُن کا حِساب اُس سے لُوں گا۔”
- حضرت داود نے آنے والے مسیح کے بارے میں پیش گوئی کی تھی۔ یہودیوں کی طویل تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے۔ کہ آںے والا مسیح کس طرح کا ہوگا۔
- حضرت یسعیاہ نے پیش گوئی کی ایک کنواری ایک بیٹے کو جنم دے گی۔ اور زبور شریف اختتام تک یہودی اس حیرت انگیز واقع کے رونما ہونے کے منتظر تھے۔
- حضرت یرمیاہ نے نئے عہد کی پیش گوئی کی تھی۔ جو ہمارے دلوں پر لکھا جانا تھا۔
- حضرت زکریاہ پیش گوئی کی تھی۔ کہ اُس کا نام “مسیح” ہو گا۔
- حضرت دانیال پیش گوئی کی تھی۔ کہ جب مسیح آئے گا تو اس کی بجائے وہ بادشاہی کرے وہ قتل کردیا جائے گا۔
- حضرت یسعیاہ نے پیش گوئی کی کہ وہ”خادم” آئے گا۔ اُس پر بہت زیادہ تشددید کیا جائے گا۔ لیکن وہ “زندوں کی زمین پر سے کاٹ ڈالا جائے گا”۔
- حضرت ملاکی نے مسیح کے آنے سے پہلے راہ تیار کرنے والے کے بارے میں پیش گوئی کی۔ جو آئے گا اور لوگوں کے دلوں کو تیار کرے گا اور تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بات کو دل سے قبول کریں۔
لہذا 450 ق م میں جب زبور شریف کا اختتام ہو گیا تھا۔ اُس وقت بھی یہودی ان وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ اور وہ مسلسل نسل در نسل انتظار کررہے تھے۔ کہ کب یہ وعدے پورے ہونگے۔
زبور شریف کے مکمل ہونے کے بعد کیا ہوا
جیسا کہ ہم نے اسرائیلیوں کی تاریخ میں دیکھا، اسکندرِاعظیم نے 330 ق.م. میں دنیا کا زیادہ تر معروف حصہ فتح کرلیا تھا اور لوگوں نے یونانی تہذیب کو اور یونانی زبان کو اپنا لیا تھا۔ جس طرح آج انگریزی زبان دنیا کی معروف ترین زبان ہے۔ اُسی طرح اُس وقت یونانی دنیا کی غالب ترین زبان تھی۔ یہودی ربیوں نے 250 ق م میں تورات شریف اور زبور شریف کا ترجمہ عبرانی سے یونانی زبان میں کیا تھا۔ اس ترجمہ کو سپٹواجنٹ کا نام دیا گیا تھا۔ جس طرح ہم نے اس بات کا مطالعہ کیا کہ لفظ مسیح اور یسوع بھی اس ترجمہ سے برآمد ہوئے ہیں۔
حضرت یسعیاہ، حضرت ملاکی، اور حضرت حزقی ایل کا اور کچھ دوسرے انبیاءاکرام کا تاریخی ٹائم لائن
اس عرصے میں (300 ق م کو نیلے رنگ میں دیکھایا گیا ہے) شام اور مصر کے درمیان جنگی کشمکش جاری تھی۔ اور اسرائیلی ان دنوں ریاستوں کے درمیان رہ رہے تھے۔ کئی بار شامی بادشاہ اسرائیلوں پر اپنے یونانی مذہب چسپاں کرنے کی کوشش کرتے۔ تو اُسی وقت کوئی یہودی لیڈر اپنے مذہبی اعقائد کا مقابلہ کرتا اور اسرائیل کی مذہبی روایت کو بحال کرتا۔ جس کو حضرت موسیٰ نے اُن کو دیا تھا۔ کیا ان مذہبی راہنماوں نے اُن تمام وعدوں کو پورا کیا جن کا یہودی بڑی شدید سے انتظار کررہے تھے۔ یہ راہنما بے شک بہت اچھے مذہبی لوگ تھے لیکن وہ زبور شریف اور تورات شریف میں موجود وعدوں اور نشانوں کو پورا نہیں کرسکے۔ دراصل اُنہوں نے خود اس بات کا کبھی دعوہ بھی نہ کیا کہ وہ نبی ہیں۔ اُنہوں نے صرف یہودیوں کو یونانی خداوں کی عبادت کرنے سے بچایا تھا۔
اس عرصے کے بارے میں موجود تاریخی کتابیں بیان کرتی ہیں۔ کہ کیسے یہودیوں نے اپنی مذہبی روایات کو زندہ رکھا۔ یہ کتابیں مذہبی اور تاریخی بصرت فراہم کرتی ہیں اور بہت زیادہ قمیتی ہیں۔
لیکن یہودی لوگ ان کتابوں کو الہامی تصور نہیں کرتے۔ وہ بہت اچھی کتابیں ہیں جن کو مذہبی راہنماوں نے لکھا تھا۔ لیکن ان کو انبیاء اکرام نے نہیں لکھا تھا۔ یہ کتابیں اپاکرفا کے طور پر پہچانی جاتی ہیں ۔
لیکن یہ کتابیں قابلِ استعمال تھیں کیونکہ اکثر ان کو زبور اور تورات کی تاریخوں کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ مسیح پر انجیل شریف کے نازل ہونے کے بعد تورات، زبور اور انجیل شریف کو ایک کتاب کے طور سامنے آئی۔ جس کو ہم الکتاب یا بائبل مقدس کہتے ہیں۔ آج بھی کتھولک فرقہ ان اپاکرفا کتابوں کو اپنی بائبل میں شمار کرتا ہے۔ لیکن یہ تورات اور زبور شریف کا حصہ نہیں ہیں۔
لیکن تورات اور زبور شریف میں موجود وعدے پورے ہورہے تھے۔ کہ رومی حکومت نے یہودیوں پر حملہ کرکے اُن کے ملک پر قبضہ کرلیا اور وہاں پر یونانی زبان کا راج شروع ہوگیا۔ (ٹائم لائن میں اس عرصۓ کو پیلے رنگ میں دیکھایا گیا ہے) رومیوں نے بڑے موثر لیکن سخت طریقے سے حکومت کی۔ ٹیکس بہت زیادہ ادا کرنا پڑتا اور رومی کسی کی برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہودی تورات اور زبور شریف میں موجود وعدوں کی تکمیل کا بڑھی شدید کے ساتھ انتظار کرنے لگے۔ اُن کے اس لمبے عرصے کے انتظار کے دوران اُن کی عبادت کے اصول بہت سخت ہوتے گے۔ اور اُنہوں نے انبیاء اکرام کی روایات سے بڑھ کر خود سے کئی رسومات بنالیں۔ یہ اضافی ‘حکم’ اچھے نظریات کی طرح محسوس ہوتے تھے۔ لیکن انہوں نے یہودیوں کے استادوں کے دلوں اور دماغوں میں فوری طور پر تورات اور زبور کے اصل حکموں کو بھولا دیا تھا.
اور پھر آخر کار جب لوگ یہ سمجھنے لگے کہ شاید اللہ تعالیٰ اپنے وعد وں کو بھول گیا۔ تو اُنہی دنوں میں ایک فرشتہ جبرائیل ایک طویل انتظار کے بعد ایک رسول جو تیاری کے لیے نازل ہونے والا تھا۔ اُس کی پیدائش کی خبر لے کر نازل ہوا۔ آج ہم اُس کو حضرت یحٰیی کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن یہ انجیل شریف کا ابتدائی واقعہ ہے۔ ہم اگلے مضمون میں اس کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔