یسوع کا یروشلم میں شاہا نہ داخلہ
21 یسوع اور اسکے شاگرد یروشلم کی طرف سے سفر کرتے ہو ئے زیتون کے پہاڑ کے نزدیک بیت فگے کو پہنچے۔ 2 وہاں یسوع نے اپنے دونوں شا گردوں کو بلا کر کہا، “تم اپنے سامنے نظر آنے والے شہر کو جاؤ۔ جب تم اس میں داخل ہو گے تو وہاں پر بندھی ہو ئی ایک گدھی پاؤگے۔ اور اس گدھی کے ساتھ اسکا بچہ بھی ہو گا۔ انہیں کھو ل کر میرے پاس لے آؤ۔ 3 اگر تم سے کو ئی یہ پو چھے کہ ان گدھوں کو کھو ل کر کیوں لے جا رہے ہو تو کہنا کہ مالک کو ان گدھوں کی ضرورت ہے اور وہ ان گدھوں کو بہت جلد ہی واپس لوٹا دیگا۔ یہ کہہ کر انہوں نے ا ن لوگوں کو بھیج دیا۔”
4 یہ اسلئے ہوا کہ جو پیشین گوئی نبی کے ذریعے دی گئی تھی پوری ہو جائے:
5 “صیّون شہر سے کہہ دو۔
تیرا بادشاہ اب تیرے پاس آرہا ہے
وہ بہت ہی عاجزی سے گدھے پر سوار ہو کر آرہا ہے۔
ہاں وہ جوان گدھے پر بیٹھ کر آرہا ہے۔ جو پیدائش سے ہی کام کر نے والا جانور ہے۔” [a]6 یسوع کے کہنے کے مطابق وہ شاگرد گئے گدھی اور اسکے بچے کو یسوع کے پاس لا ئے۔ 7 وہ اپنے جبّوں کو انکے اوپر ڈالدیا۔ 8 تب یسوع اس پر سوار ہو کر یروشلم چلے گئے۔ بہت سارے لوگ اپنے جبّوں کو یسوع کی خاطر راستے پر بچھا نے لگے۔ اور بعص لوگ درختوں سے شگوفے اور نئی کونپلیں توڑ لائے اور راہ پر پھیلا دیئے۔ 9 بعض لوگ یسوع کے آگے اور بعض لوگ یسوع کے پیچھے چلتے آرہے تھے۔ اور ان لوگوں نے اس طرح نعرے لگانے لگے:
“ابن داؤد کی تعریف و بڑائی کرو
,خداوند کے نام پر آنے والے کو خدا کی نظر و کرم ہو۔ [b]آسمانی خدا کی حمد و ثنا کرو!”
10 جب یسوع یروشلم میں داخل ہو ئے تو سارے شہر کے لوگ پریشان ہو گئے ا ن میں ہلچل مچ گئی اور دریافت کر نے لگے کہ “یہ کون آدمی ہے؟”
11 یسوع کے پیچھے پیچھے چلنے والے ہجوم نے جواب دیا، “یہی یسوع ہے، یہ گلیل علاقے کے ناصرت نام کے گاؤں کا نبی ہے۔”
یسوع ہیکل کو گئے
12 یسوع ہیکل کے اندر چلے گئے۔ وہاں پر خرید و فروخت کر نے والے تمام لوگوں کو اس نے وہاں سے بھگا دیا۔ سِکّوں کا صرّافہ کر نے والوں کو اور کبوتر فروخت کر نے والوں کے میز گرا دیئے۔ 13 یسوع نے وہاں پر موجود لوگوں سے کہا، “میرا گھر عبادت گاہ کہلائے گا۔” [c] اسی طرح صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، “لیکن تم ہیکل کو چوروں کے غار کی طرح بنا دیتے ہو۔” [d]
14 چند اندھے اور لنگڑے لوگ ہیکل میں یسوع کے پاس آئے۔ یسوع نے انکو شفاء دی۔ 15 اعلی کاہنوں اور معلّمین شریعت نے یہ سب دیکھا۔ ان لوگوں نے یسوع کے معجزے اور ہیکل میں چھوٹے چھو ٹے بچّوں کو یسوع کی تعریف میں گن گاتے ہو ئے دیکھا۔ چھوٹے بچے پکار رہے تھے “داؤد کے بیٹے کی تعریف ہو” ان سب کی وجہ سے کاہن اور معلّمین شریعت غصّہ سے بھڑک اٹھے۔
16 اعلی کاہنوں اور معلّمین شریعت نے یسوع سے پو چھا، “یہ چھو ٹے بچے جو باتیں کہہ رہے ہیں کیا انکو تو نے سنا ؟” یسوع نے جواب دیا، “ہاں تو نے چھو ٹے اور معصوم بچوں کو تعریف کرنا سکھا یا ہے۔” [e] جو بات صحیفوں میں مذکور ہے۔ اور پوچھا کہ کیا تم صحیفہ پڑھتے نہیں ہو ؟”
17 تب اس نے اس جگہ کو چھو ڑ دیا اور بیت عنیاہ کو چلے گئے اور یسوع نے اس رات وہیں پر قیام کیا۔
یسوع نے ایمان کی قوّت کو بتایا
18 دوسرے دن صبح یسوع شہر کو واپس جا رہے تھے کہ انکو بھوک لگی۔ 19 انہوں نے راستے کے کنارے ایک انجیر کا درخت دیکھا اور اسکے میوہ کو کھانے کے لئے درخت کے قریب گئے۔ لیکن درخت میں صرف پتّے ہی تھے۔ اس وجہ سے یسوع نے اس درخت سے کہا، “اس کے بعد تجھ میں کبھی پھل پیدا نہ ہوں۔” اسکے فوراً بعد انجیر کا درخت خشک ہو گیا۔
20 شاگردوں نے اس منظر کو دیکھ کر بہت تعجب کیا اور پو چھنے لگے یہ انجیر کا درخت اتنی جلدی کیسے سوکھ گیا؟”
21 یسوع نے جوابدیا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم شک و شبہ کے بغیر ایمان لاؤ جس طرح میں نے اس درخت کے ساتھ کیا ہے ویسا ہی تمہارے لئے بھی کرنا ممکن ہو سکے گا اس سے اور زیادہ بھی کر ناممکن ہو گا۔ اگر تم اس پہاڑ سے کہو کہ تو جاکر سمندر میں گر جا اگر پختہ ایمان سے کہا جائے تو ایسا بھی ضرور ہو گا۔ 22 جو کچھ بھی تم دعا میں مانگو گے وہ تمہیں ملیگا اگر تمہارا ایمان پختہ ہے۔”
یہودی قائدین کا یسوع کے اختیار کے بارے میں شبہ کر نا
23 یسوع ہیکل میں چلے گئے۔ یسوع جب وہاں تعلیم دے رہے تھے تو سردار کاہنوں اور لوگوں کے بڑے بڑے رہنما یسوع کے پاس آئے اور وہ یسوع سے پو چھنے لگے “تو ان تمام باتوں کو کس کے اختیارات سے کر رہا ہے ؟ اور یہ اختیار تجھے کس نے دیا ہے ؟ ہمیں بتا”
24 یسوع نے کہا، “میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔اگر تم نے اسکا جواب دیا تو میں تم کو بتا دونگا کہ میں کس کے اختیارات سے انکو کر رہا ہوں۔ 25 اگر ہم کہتے ہیں کہ کیا یوحنا کو بپتسمہ دینے کا اختیار خدا سے یا کسی انسان سے ملا ہے؟ مجھے بتاؤ۔”
کاہن اور یہودی قائدین یسوع کے سوال سے متعلق آپس میں باتیں کر نے لگے کہ اگر یہ کہیں کہ یوحنا کو بپتسمہ دینے کا اختیار خدا سے ملا ہے تو وہ پو چھے گا کہ ایسے میں تم اس پر ایمان کیوں نہیں لائے ؟ 26 “اگر یہ کہیں کہ وہ انسان سے ملا ہے تو لوگ ہم پر غصّہ کریں گے۔ اسلئے کہ ان سبھوں نے یوحنا کو ایک نبی تسلیم کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ان سے ڈریں۔ اسطرح وہ آپس میں باتیں کر نے لگے۔”
27 تب انہوں نے جواب دیا، “یو حنا کو کس نے اختیار دیئے ہمیں نہیں معلوم” پھر یسوع نے کہا ، “میں ان تمام باتوں کو کس کے اختیارات سے کرتا ہوں وہ تمہیں نہیں بتاؤنگا!
دولڑکوں سے متعلق یسوع کی کہی ہوئی تمثیل
28 “اس کے بارے میں تم کیا سمجھتے ہو۔ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ وہ آدمی پہلے بیٹے کے پاس گیا اور کہا کہ بیٹا آج تو انگور کے باغ میں جا کر کام کر۔
29 “اس پر بیٹے نے جواب دیا، میں نہیں جا ؤں گا۔لیکن پھر بعد میں ارادہ بدل کر کام پر چلا گیا۔
30 “باپ نے پھر دوسرے بیٹے کے پاس جاکر کہا کہ بیٹا آج تو انگور کے باغ میں جاکر کام کر۔ تب بیٹے نے کہا، اے میرے ابّا ٹھیک ہے میں جاکر کام کرتا ہوں۔ لیکن وہ بیٹا کام پر گیا ہی نہیں۔
31 “ان دونوں میں سے کون باپ کا فرماں بردار ہوا” ؟ تب یہودی قائدین نے جواب دیا، “پہلا بیٹا” تب یسوع نے ان سے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول وصول کر نے والوں اور طوائفوں کو تم برے لوگ تصور کرتے ہو۔ لیکن وہ تم سے پہلے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونگے۔ 32 تم کو زندگی کے صحیح طریقے اور ڈھنگ سکھا نے کے لئے یو حنا آئے تھے۔ لیکن تم تو یوحنا پر ایمان نہ لائے۔ جیسا کہ تم محصول وصول کرنے والوں اور فا حشاؤں کو ایمان لاتے ہو ئے تم دیکھ چکے ہو- لیکن اسکے با وجود بھی تم اپنے اندر تبدیلی لانا اور ایمان لانا نہیں چاہتے۔ اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر تے ہو-
خدا کے خاص بیٹے کی آمد
33 “ا س کہا نی کو سنو! ایک آدمی کا اپنا ذاتی باغ تھا۔اور وہ اپنے باغ میں انگور کی فصل لگا ئی۔ باغ کے اطراف دیوار تعمیر کی انگور کی مئے تیار کروا نے کے لئے گڑھے کھد وا یا اور نگرا نی کے لئے مچان بنو ایا۔وہ اس باغ کو چند کسانوں کو ٹھیکہ پر دیا اور دوسرے ملک کو چلا گیا۔ 34 جب انگور کی فصل توڑ نے کا وقت آیا تو اس نے نوکروں کو اپنا حصہ لا نے کیلئے کسا نوں کے پاس بھیجا۔
35 تب ایسا ہوا کہ ان باغبانوں نے ان نوکروں کو پکڑ لیا اور ایک کی تو پٹائی کی اور دوسرے کو مار دیا اور تیسرے نوکر کو پتھر پھینک کر مار دیا *۔ 36 اس لئے اس نے پہلے جتنے نوکروں کو بھیجا تھا ان سے بڑھ کر نوکروں کو ان باغبانوں کے پاس بھیجا۔ لیکن باغبانوں نے جس طرح پہلی مرتبہ کیا تھا اسی طرح دوسری مرتبہ ان نوکروں کو بھی ایسا ہی کیا۔ 37 تب اس نے سمجھا کہ یقیناً باغبان میرے بیٹے کی عزت کریں گے اسلئے اس نے اپنے بیٹے ہی کو بھیجا۔
38 لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں باتیں کرنے لگے یہ تو باغ کے مالک کا بیٹا ہے۔ یہ باغ تو اسی کا ہوگا۔ اسلئے اگر ہم اسکو مار دیں تو یہ باغ ہمارا ہی ہوگا۔ 39 اسطرح باغبانوں نے بیٹے کو پکڑ کر باغ سے باہر کھینچ کر لایا اور اسکو قتل کر دیا۔
40 “ان حالات میں جب باغ کا مالک خود آئیگا تو وہ ان کسانوں کا کیا کریگا ؟”
41 یہودی کاہنوں اور قائدین نے کہا، “یقیناً وہ ان ظالموں کو ماریگا اور اپنا باغ دوسرے کسانوں کو ٹھیکہ پر دیگا۔ تا کہ موسم پر اسکا حصّہ دیں سکیں۔”
42 یسوع نے ان سے کہا یقیناً تم نے اس بات کو صحیفو ں میں پڑھا ہے:
گھر کی تعمیر کرنے والے نے جس پتّھر کو ردّ کیا وہی پتھّر میرے کو نے کا پتھّر بن گیا۔
یہ کام خدا وند نے کیا۔ اور یہ ہمارے لئے حیرت کا باعث ہے۔ [f]43 “اسی وجہ سے میں تم سے جو کہتا ہوں وہ یہ کہ خدا کی بادشاہت تم سے چھین لی جائیگی اس خدا کی بادشاہت کو خدا کی مرضی کے مطابق کام کر نے والوں کو دی جائیگی۔ 44 جو شخص اس پتھّر پر گریگا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا۔ اور اگر پتھّر اس شخص پر گریگا تو یہ اس شخص کو کچل ڈالیگا۔”
45 سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یسوع کی کہی ہوئی کہانیوں کو سنا تو ان لوگوں نے جانا کہ یسوع ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ 46 انہوں نے یسوع کو قید کرنے کی تدبیر تلاش کی لیکن وہ لوگوں سے گھبراکر گرفتار نہ کر سکے۔ کیوں کہ لوگ یسوع پر ایک نبی ہو نے کے ناطے ایمان لا چکے تھے۔
کھانے پر مدعو کئے گئے لوگوں سے متعلق کہانی
22 یسوع نے دیگر چند چیزوں کو لوگوں سے کہنے کے لئے تمثیلوں کا استعمال کیا۔ 2 “آسمان کی بادشاہی ایک ایسے بادشاہ کی مانند ہے جو اپنے بیٹے کی شادی کی ضیافت کی تیاری کرے۔ 3 اس بادشاہ نے اپنے نوکروں کو ان لوگوں کو بلا نے کے لئے بھیجا جنہیں شادی کی ضیافت کے لئے دعوت دیئے گئے تھے۔ لیکن وہ لوگ ضیا فت میں شریک ہو نا نہیں چاہا۔
4 “تب بادشاہ نے مزید چند نوکروں کو بلا کر کہا کہ ان لوگوں کو تو میں نے پہلے ہی بلایا تھا۔ ان سے کہو کھا نے کی ہر چیز تیار ہے۔ میں نے فربہ بیل اور گائے ذبح کر وائی ہے۔ اور سب کچھ تیار ہے اور ان سے یہ کہلا بھیجا کہ شادی کی دعوت کے لئے وہ آئیں۔
5 “نوکر گئے اور لوگوں کو آنے کے لئے کہا۔ لیکن ان لوگوں نے نوکروں کی بات نہیں سنی۔ ایک تو اپنے کھیت میں کام کر نے کے لئے چلا گیا۔ اور دوسرا اپنی تجارت کے لئے چلا گیا۔ 6 اور کچھ دوسرے لوگوں نے ان نوکروں کو پکڑا مارا پیٹا،اور ہلاک کردیا۔ 7 تب بادشاہ بہت غصّہ ہوا اور اپنی فوج کو بھیجا ان قاتلوں کو ختم کروایا اور ان کے شہر کو جلایا۔
8 “پھر بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ شادی کی ضیافت تیار ہے۔ اور میں نے جن لوگوں کو ضیافت میں دعوت دیا ہے وہ دعوت کے اتنے زیادہ اہل نہیں ہیں۔ 9 اور اس نے کہا کہ گلی کے کو نے کونے میں جا کر تم نظر آنے والے تمام لوگوں کو ضیافت کے لئے دعوت دو۔ 10 اسی طرح نوکر گلی گلی گھو م کر نظر آنے والے تمام لوگوں کو اچھے برے کی تخصیص کئے بغیر تمام کو جمع کرکے اسی جگہ پر بلا لا ئے جہاں ضیافت تیار تھی۔ اور وہ جگہ لوگوں سے پُر ہو گئی۔
11 “تب بادشاہ تمام لوگوں کو دیکھنے کے لئے اندر آئے جو کھا رہے تھے۔ بادشاہ نے ایک ایسے آدمی کو بھی دیکھا کہ جو شادی کے لئے نا مناسب لبا س پہنے ہوئے تھا* 12 اور پو چھا، اے دوست تو اندر کیسے آیا؟ تم نے تو شادی کے لئے موزو و مناسب پو شاک نہیں پہن رکھّی ہے۔ لیکن اس نے کو ئی جواب نہ دیا۔ 13 تب بادشاہ نے چند نوکروں سے کہا اسکے ہاتھ پیر باندھکر اسکو اندھیرے میں اس جگہ پر جہاں وہ تکالیف میں مبتلا ہوگا اپنے دانتوں کو پیسے گا پھینک دو۔
14 “ہاں ضیافت میں تو بہت سے لوگوں کو دعوت دی گئی ہے لیکن منتخب کردہ کچھ ہی افراد ہیں۔”
چند یہودی قائدین کا یسوع کو فریب دینے کی کو شش کرنا
15 تب فریسی وہاں سے نکل گئے جہاں یسوع تعلیم دے رہے تھے۔ وہ منصوبے بنا رہے تھے کہ یسوع کو غلط کہتے ہو ئے پکڑ لیں۔ 16 فریسیوں نے یسوع کو فریب دینے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ انہوں نے اپنے کچھ پیرو کاروں کو روانہ کیا اور بعض لوگوں کو جو ہیرودی نامی گروہ سے تھے۔ ان لوگوں سے کہا، “اے آقا! ہم جانتے ہیں کہ تو فرمانبردار شخص ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی راہ کے بارے میں تو نے حق کی تعلیم دی ہے۔ تو خوفزدہ نہیں ہے کہ دیگر لوگ تیرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ سب انسان تیرے لئے مساوی ہیں۔ 17 پس تو اپنا خیال ظا ہر کر۔کہ قیصر کو محصول دینا صحیح ہے یا غلط۔” 18 یسوع ان لوگوں کی مکّاری وعیاری کو جان گئے۔ اس وجہ سے اس نے ان سے کہا کہ تم ریا کار ہو مجھے غلطی میں پھنسا نے کی تم کیوں کو شش کرتے ہو ؟ 19 محصول میں دیا جانے والا ایک سکّہ مجھے دکھلاؤ۔ “تب لوگوں نے ایک چاندی کا سکہ انہیں دکھایا۔ 20 تب اس نے ان سے پو چھا ، “سکّے پر کس کی تصویر ہے اور کس کا نام ہے ؟”
21 پھر لوگوں نے جواب دیا، “وہ توقیصر کی تصویر اور اسکا نام ہے۔” تب یسوع نے ان سے کہا، “قیصر کی چیز قیصر کو دے دو اور جو خدا کا ہے خدا کو د ے دو۔”
22 یسوع کی کہی ہو ئی باتوں کو سننے والے وہ لوگ حیرت زدہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔
چند صدوقیوں کا یسوع کو فریب دینے کی کو شش کر نا
23 اسی دن چند صدوقی یسوع کے پاس آئے (صدوقیوں کا ایمان ہے کہ کو ئی بھی شخص مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں ہو تا۔) صدوقیوں نے یسوع سے سوال کیا۔ 24 ان لوگوں نے کہا، “ا ے آقا! موسٰی نے کہا اگر کوئی شادی شدہ شخص مرجائے اور اسکی کوئی اولاد نہ ہو تب اسکا بھائی اس عورت سے شادی کرے اور پھر مرے ہو ئے بھا ئی کے لئے بچّے کرے۔ 25 ہمارے یہاں سات بھا ئی تھے پہلا شادی ہونے کے بعد مرگیا اس کے بچے نہیں تھے۔ اس لئے اسکی بیوی کی اس کے بھائی کے ساتھ شادی ہو ئی۔ 26 تب دوسرا بھا ئی بھی مر گیا۔ اسی طرح تیسرا بھا ئی بھی اسی طرح باقی تمام سات بھائی بھی مر گئے۔ 27 ان تمام کے بعد بالآخر وہ عورت بھی مر گئی۔ 28 لیکن ان سات بھائیوں نے بھی اس سے شادی کی۔ تب انہوں نے پو چھا کہ جب وہ مرکر دوبارہ زندہ ہونگے تو وہ عورت کس کی بیوی کہلا ئے گی۔
29 یسوع نے ان سے کہا، “تم نے جو غلط سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ مقدس صحیفے کیا کہتے ہیں اور خدا کی قدرت و طاقت کے بارے میں تم نہیں جانتے۔ 30 عورتیں اور مرد جب دوبارہ زندگی پائیں گے تو وہ ( دوبارہ ) شادی نہ کریں گے وہ سب آسمان میں فرشتوں کی طرح ہونگے۔ 31 مرے ہو ئے لوگوں کی دوبارہ زندگی سے متعلق خدا نے کہا۔ 32 کیا تم نے صحیفوں میں نہیں پڑھا میں ابراہیم کا خدا ہوں اسحٰق کا خدا اور یعقوب کا بھی خدا ہوں کیا تم نے اس بات کو نہ پڑھا ہے؟ اور کہا کہ اگر یہی بات ہے تو خدا زندوں کا خدا ہے نہ کہ مردوں کا۔”
33 جب لوگوں نے یہ سنا تو اسکی تعلیم پر حیران و ششدر ہو گئے۔
انتہائی اہم ترین حکم کونسا ہے؟
34 جب فریسیوں نے سنا کہ یسوع نے اپنے جواب سے صدوقیوں کو خاموش کر دیا ہے تو وہ سب صدوقی ایک ساتھ جمع ہو ئے 35 شریعت موسٰی میں بہت مہارت رکھنے والا ایک فریسی یسوع کو آزمانے کے لئے پوچھا۔ 36 فریسی نے کہا، “اے استاد توریت میں سب سے بڑا حکم کونسا ہے ؟”
37 یسوع نے کہا، “تجھ کو اپنے خداوند خدا سے محبت کر نا چاہئے۔ تو اپنے دل کی گہرائی سے اور تو اپنے دل و جان سے اور تو اپنے دماغ سے اسکو چاہنا۔ [a] 38 یہی پہلا اور اہم ترین حکم ہے۔ 39 دوسرا حکم بھی پہلے کے حکم کی طرح ہی اہم ہے۔ تو دوسروں سے اسی طرح محبت کر جیسا خود سے محبت کر تےہو۔ [b] 40 اور جواب دیاکہ تمام شریعتیں اور نبیوں کی تمام کتابیں انہیں دو احکامات کے معنی اپنے اندر لئے ہو ئے ہیں۔”
یسوع کا فریسیوں سے کیا ہوا سوال
41 فریسی جب ایک ساتھ جمع ہو کر آئے تو یسوع نے ان سے سوال کیا۔ 42 “مسیح کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ اور وہ کس کا بیٹا ہے ؟” فریسیوں نے جواب دیا، “مسیح داؤد کا بیٹا ہے۔”
43 تب یسوع نے فریسیوں سے پو چھا، “اگر ایسا ہی ہے تو داؤد نے اسکو خدا وند کہہ کر کیوں پکا را ؟ داؤد نے مقدس روح کی قوت سے بات کی تھی۔ داؤد نے یہ کہا ہے۔
44 خداوند خدا نے میرے خداوند کو کہا
میری داہنی جانب بیٹھ
میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تلے ذلیل و رسوا کرونگا۔ [c]45 داؤد نے مسیح کو خداوند کہہ کر پکا را ہے۔ ایسی صورت میں کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ داؤد کا بیٹا ہے۔”
46 یسوع کے سوال کا جواب دینا فریسیوں میں سے کسی کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔ اسی لئے اس دن سے یسوع کو فریب دینے کے لئے سوال کرنے کی کو ئی ہمت نہ کر سکا۔
یسوع کا مذہبی قائدین پر تنقید کرنا
23 تب یسوع نے وہاں موجود لوگوں سے اور پنے شاگردوں سے کہا۔ 2 “معلمین شریعت اور فریسیوں کو حق ہے کہ تجھ سے کہے کہ شریعت موسیٰ کیا ہے ؟ 3 اس وجہ سے تم کو ان کا اطا عت گذار ہو نا چا ہئے۔ اور ان کی کہی ہو ئی باتوں پر عمل کر نا چا ہئے۔ لیکن ان لوگوں کی زندگی پیروی کی جا نے کے لئے قابل عمل مثا ل نہیں ہے۔وہ تم سے جو باتیں کہتے ہیں اس پر وہ خود عمل نہیں کر تے۔ 4 وہ تو دوسروں کو مشکل ترین احکا مات دے کر ان پر عمل کر نے کے لئے ان لوگوں پر زبر دستی کر تے ہیں۔ اور خود ان احکا مات میں سے کسی ایک پر بھی عمل کر نے کی کوشش نہیں کر تے۔
5 “وہ صرف ایک مقصد سے اچھے کام اس لئے کر تے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کو دیکھیں وہ خاص قسم کے چمڑے کی تھیلیاں جس میں صحیفے رکھے ہوتے ہیں جن کو وہ باندھ لیتے ہیں۔ اور وہ ان تھیلیو ں کے حجم کو بڑھا تے ہو ئے جا تے ہیں۔لوگو ں کو دکھا نے کے لئے وہ اپنے خاص قسم کی پو شاکوں کو اور زیا دہ لمبے سلوا تے ہیں۔ 6 وہ فریسی اور معلمین شریعت کھا نے کی دعوتوں میں یہودی عبادت گاہوں میں بہت خاص اور مخصوص جگہوں پر بیٹھنے کی تمنا کر تے ہیں۔ 7 با زاروں کی جگہ وہ لوگوں سے عزت و بڑا ئی پا نے کی آرزو کر تے ہیں۔ اور لوگوں سے معلم کہلوا نے کے متمنی ہو تے ہیں۔
8 “لیکن تم معلم کہلوا نے کو پسند نہ کرو۔ اس لئے کہ تم سب آپس میں بھا ئی اور بہنیں ہو اور تم سب کا ایک ہی معلم ہے۔ 9 اس دنیا میں تم کسی کو باپ کہہ کر مت پکا رو۔ اس لئے کہ تم سب کا ایک ہی باپ ہے اور وہ آسمان میں ہے۔ 10 اور تم ہا دی بھی نہ کہلا ؤ اس لئے کہ تمہا را ہا دی صرف مسیح ہی ہے۔ 11 ایک خا دم کی طرح تمہا ری خدمت کر نے وا لا شخص ہی تمہا رے درمیان بڑا آدمی ہے۔ 12 خود کو دوسروں سے اعلیٰ وارفع تصور کر نے وا لا جھکا یا جا ئے گا۔ اور جو اپنے آپ کو کمتر اور حقیر جانے گا وہ با عزت (اونچاو ترقی یافتہ ) بنا دیا جا ئے گا۔
13 “اے معلمین شریعت اور اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے برا ہے۔ تم منا فق ہو۔ تم لو گوں کے لئے آسمان کی بادشاہت میں دا خل ہو نے کے راستے کو مسدود کر تے ہو۔ تم خود داخل نہیں ہو ئے اور تم نے ان لوگوں کو بھی روک دیا جو داخل ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 14 (اے معلمین شریعت اور فریسیو میں تمہارا کیا حشر بتاؤنگا۔تم تو ریاکار ہو۔ “اس لئے تم بیواؤں کے گھروں کو چھین لیتے ہو اور تم لمبی دعا کرتے ہو تا کہ لوگ تمہیں دیکھیں – اس لئے تم کو سخت سزا ہوگی ۔”) [a]
15 “اے معلمین شریعت اے فریسیو! میں تمہا را انجام کیا بتا ؤں تم تو ریا کار ہو تمہا ری (بتا ئی ہوئی ) راہوں کی پیر وی کرنے والوں کی ایک ایک کی تلا ش میں تم سمندروں کے پار مختلف شہروں کے دورے کر تے ہو۔ اور جب اس کو دیکھتے ہو تو تم اس کو اپنے سے بد تر بنا دیتے ہو اور تم نہا یت برے ہو جیسے تم جہنم سے وابستہ ہو۔
16 اے معلمین شریعت اور اے فریسیو!تمہا رے لئے برا ہو گا۔ تم تو لوگوں کو راستہ بتا تے ہو لیکن تم خود اندھے ہو۔ تم کہتے ہو کہ اگر کوئی شخص ہیکل کے نام کے استعمال پر وعدہ لیتا ہے تو اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں۔ اور اگر کوئی ہیکل میں پا ئے جا نے وا لے سونے پر وعدہ لے تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔ 17 تم اندھے بیوقوف ہو! کونسی چیز عظیم ہے، سونا یا ہیکل؟ وہ سونا صرف ہیکل کی وجہ سے مقدس ہوا اس لئے ہیکل ہی عظیم ہے-
18 اگر کو ئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کہتے ہو کہ اس کی کو ئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اگر کوئی قربان گاہ پر پا ئی جانے وا لی نذر کی چیز پر قسم کھا ئے تو کہتے ہو اس کو پوری کرنی چاہئے۔ 19 تم اندھے ہو تم کچھ نہیں سمجھ تے۔کونسی چیز اہم ہے ؟ نذر یا قربان گاہ؟ نذر میں قربا ن گاہ کی وجہ سے پا کی پیدا ہو تی ہے۔ اس وجہ سے قربان گا ہ ہی عظیم ہے۔ 20 اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھا تا ہے تو گویا قربا ن گاہ اور اس پر جو کچھ نذر کے لئے رکھا ہے اس کی قسم لینے کے برا بر ہے۔ 21 اگر کو ئی ہیکل کی قسم کھا تا ہے تو حقیقت میں وہ ہیکل کی اور اس میں رہنے وا لے کی قسم کھا تا ہے۔ 22 جو آسمان کی قسم کھا تا ہے تو یہ خدا کے عرش اور اس عرش پر بیٹھنے وا لے کی قسم کھا نے کے برا بر ہوگا۔
23 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہارے لئے برا ہے! تم ریا کار ہو۔تم اپنی ہر چیز کا یہاں تک کہ پو دینہ، سونف اور زیرے کے پودوں میں بھی قریب قریب دسواں حصہ خدا کو دیتے ہو۔لیکن تم نے شریعت کی تعلیم میں اہم ترین تعلیمات کو یعنی عدل و انصاف ،رحم وکرم اور اصلیت کو ترک کر دیا ہے۔تمہیں خود ان احکا مات کے تا بع ہو نا ہو گا۔اب جن کاموں کو کر رہے ہو انہیں پہلے ہی کرنا چاہئے تھا۔ 24 تم لوگوں کی ر ہنما ئی کر تے ہو۔لیکن تم ہی اندھے ہو۔تم تو پینے کے مشروبات میں سے چھوٹے مچھر کو نکا ل کر بعد میں خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو۔
25 “اے معلمین شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے براہے۔تم ریا کا ر ہو۔ تم اپنے بر تن و کٹوروں کے با ہری حصے کو دھو کر صاف ستھرا تو کر تے ہو لیکن انکا اندرونی حصہ لا لچ سے اور تم کو مطمئن کر نے کی چیزوں سے بھرا ہے۔ 26 اے فریسیو تم اندھے ہو پہلے کٹو رے کے اندرونی حصہ کو اچھی طرح صاف کر لو۔ تب کہیں جا کر کٹو رے کے با ہری حصہ حقیقت میں صاف ستھرا ہوگا۔
27 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہا رے لئے بہت برا ہے! تم ریا کا ر ہو۔تم سفیدی پھرائی ہو ئی قبروں کی ما نند ہو۔ ان قبروں کا بیرونی حصہ تو بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔لیکن اندرونی حصہ مردوں کی ہڈیوں اور ہر قسم کی غلاظتوں سے بھرا ہو تا ہے۔ 28 تم اسی قسم کے ہو۔ تم کو دیکھنے والے لوگ تمہیں اچھا اور نیک تصور کرتے ہیں۔ لیکن تمہارا باطن ریا کاری اور بد اعمالی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔
29 “اے معلمیں شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہارے لئے بہت برا ہے! کہ تم ریا کار ہو۔ تم نبیوں کے مقبرے تعمیر کرتے ہو۔ اور تم قبروں کے لوگوں کے لئے تکریم ظاہر کرتے ہو۔ جنہوں نے نفیس زند گی گزاری ہے۔ 30 اور تم کہتے ہو کہ اگر ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں ہو تے تو نبیوں کے قتل و خون میں انکے مدد گار نہ ہو تے۔ 31 اس لئے تم قبول کرتے ہو کہ ان نبیوں کے قاتلوں کی اولاد تم ہی ہو۔ 32 تمہارے باپ دادا ؤں سے شروع کیا ہوا وہ گناہ کا کام تم تکمیل کو پہنچاؤگے۔
33 “تم سانپوں کی طرح ہو۔ اور تم زہریلے سانپوں کے نسل سے ہو! لیکن تم خدا کے غضب سے نہ بچ سکو گے۔ تم سبھوں پر ملزم ہو نے کی مہر لگے گی اور سب جہنم میں گھسیٹے جاؤگے۔ 34 میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نبیوں عالموں اور معلمین کو بھیجو نگا اور تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے۔ اور بعض کو صلیب پر چڑھا ؤ گے۔ اور چند دوسروں کو تمہارے یہودی عبادت گاہوں میں کوڑے ماروگے۔ اور انکو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو بھگاؤ گے۔
35 اس وجہ سے سطح زمین پر تمام راستبازوں کے کئے گئے قتل کے الزام میں تم قصور وار ٹھہرو گے۔ ہابل جو ایمان دار تھا اس سے لیکر برکیاہ کے بیٹے زکریاہ تک کے قتل کا الزام تمہارے سر آئیگا اسے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا گیا تھا۔ 36 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس دور میں تم سبھوں پر جو کہ اب رہ رہے ہو یہ سب الزامات عائد ہو تے ہیں۔
یسوع کا یروشلم کے لوگوں پر تاکید کرنا
37 “اے یروشلم اے یروشلم! تو نے نبیوں کو قتل کیا ہے۔ خدا نے جن لوگوں کو تیرے پاس بھیجا انکو پتھّروں سے مار کر تو نے قتل کیا ہے۔ کئی مرتبہ میں تیرے لوگوں کی مد کرنا چا ہا۔ جس طرح مرغی اپنے چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپا لیتی ہے۔ اسی طرح مجھے بھی تیرے لوگوں کو یکجا کر نے کی آرزو تھی۔ لیکن تو نے یہ نہیں چاہا۔ 38 دیکھو! تمہارا گھر پوری طرح خالی ہو جائیگا۔ 39 میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم اب سے دوبارہ مجھے نہ دیکھ سکو گے جب تک تم یہ نہ کہو مبارک ہے وہ شخص جو خدا وند کے نام پر آتے ہیں۔” [b]