Skip to content
Home » عمومی سوالات FAQs » Page 10

عمومی سوالات FAQs

مبارک ہو! آپ قیامت والے دن بہت زیادہ پرُاعتماد اور خوف سے آزاد ہونگے کیونکہ اگر تم نے تمام احکامات کی فرمانبرداری کی تو آپ راستباز (جنتی) بن جائیں گے۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا۔ جس نے اس طرح تمام احکامات کی اطاعت کی ہو۔ لیکن یہ واقعی ایک عظیم کامیابی ہے۔ لیکن اپنی کوششوں کو روکیں مت کیونکہ آپ کو ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہونے کے لیے سیدھے راستہ پر چلتے رہنا ہے

                میں نے کہا تھا کہ دس احکام اور شریعت کبھی بھی منسوح نہیں ہوئے۔ کیونکہ یہ زندگی کے بنیادی اصول ہیں۔ کہ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت، زنا، چوری اور صداقت جیسے معاملات میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن بعد میں انبیاءاکرام نے ان احکامات کی مزید تفصیل سے وضاحت کی۔ ذیل میں حضرت عیسیٰ مسیح نے انجیل شریف میں بتایا ہے۔ کہ کیسے ہم ان دس احکام پر عمل کرسکتے ہیں۔ ان کی تعلیم میں وہ فریسیوں سے مخاطب ہو کر بات کرتے ہیں۔ یہ اُس وقت کے مذہبی اُستاد تھے۔ ان کو آج کے مذہبی علماء یا عالم کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

حضرت عیسیٰ کی تعلیم دس احکام کے بارے میں

20  کِیُونکہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگر تُمہاری راستبازی فقِیہوں اور فرِیسِیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تُم آسمان کی بادشاہی میں ہرگِز داخِل نہ ہوگے۔
21 تُم سُن چُکے ہوکہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خُون نہ کرنا اور جو کوئی خُون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائِق ہوگا۔
22  لیکِن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اپنے بھائِی پر غُصّے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائِق ہوگا اور جو کوئی اپنے بھائِی کو پاگل کہے گا وہ صدرِ عدالت کی سزا کے لائِق ہوگا اور جو اُس کو احمق کہے گا وہ آتشِ جہنّم کا سزاوار ہوگا۔
23 پَس اگر تُّو قُربان گاہ پر اپنی نذر گُزرانتا ہو اور وہاں تُجھے یاد آئے کہ میرے بھائِی کو مُجھ سے کُچھ شِکایت ہے۔
24 تو وَہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائِی سے مِلاپ کر تب آ کر اپنی نذر گُزران۔
25   جب تک تُو اپنے مُدّعی کے ساتھ راہ میں ہے اُس سے جلدی صُلح کرلے۔ کہِیں اَیسا نہ ہوکہ مُدّعی تُجھے مُنصِف کے حوالہ کردے اور مُنصِف تُجھے سِپاہی کے حوالہ کردے اور تُو قَید خانہ میں ڈالا جائے۔
26 مَیں تُجھ سے سَچ کہتا ہُوں کہ جب تک تُو کوڑی کوڑی ادا نہ کردے گا وہاں سے ہرگِز نہ چھُوٹے گا۔
27 تُم سُن چُکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زِنا نہ کرنا۔
28 لیکِن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ جِس کِسی نے بُری خواہِش سے کِسی عَورت پر نگاہ کی وہ اپنے دِل میں اُس کے ساتھ زِنا کرچکا۔
29   پَس اگر تیری دہنی آنکھ تُجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نِکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کِیُونکہ تیرے لِئے یہی بہُتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بَدَن جہنّم میں نہ ڈالا جائے۔
30 اور اگر تیرا دہنا ہاتھ تُجھے ٹھوکر کھلائے تو اُس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے کِیُونکہ تیرے لِئے یہی بہُتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بَدَن جہنّم میں نہ جائے۔

                                                                                متی 5: 20-30

اس کئ علاوہ حضرت عیسٰی مسیح کے صحابہ اکرام نے بھی بت پرستی کے بارے میں سکھایا۔ اُنہوں نے سکھایا کہ بت پرستی صرف یہ ہی نہیں کی بتوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ بلکہ بت پرستی ہراُس بات میں ہے جس میں کسی چیز کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ترجحات دینا شروع کردی جائے۔ اور اس میں روپیہ پیسہ بھی شامل ہوسکتا ہے۔ تاہم آپ کو محسوس کریں گے۔ اُنہوں نے “لالچ” کو بھی بت پرستی کہا۔ کیونکہ لوگ پیسے کی بھی خدا کے ساتھ عبادت کرتے ہیں۔

5    پَس اپنے اُن عضا کو مُردہ کرو جو زمِین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہِش اور لالچ کو جو بُت پرستی کے برابر ہے۔
6 کہ اُن ہی کے سبب سے خُدا کا غضب نافرمانی کے فرزندوں پر نازِل ہوتا ہے۔

                                                                                کلسیوں 3: 5-6

4  اور نہ بےشرمی اور بیہُودہ گوئی اور ٹھٹھّا بازی کا کِیُونکہ یہ لائِق نہِیں بلکہ برعکس اِس کے شُکرگُذاری ہو۔
5   کِیُونکہ تُم یہ خُوب جانتے ہو کہ کِسی حرمکار یا ناپاک یا لالچی کی جو بُت پرست کے برابر ہے مسِیح اور خُدا کی بادشاہی میں کُچھ مِیراث نہِیں۔
6  کوئی تُم کو بے فائِدہ باتوں سے دھوکا نہ دے کِیُونکہ اِن ہی گُناہوں کے سبب سے نافرمانی کے فرزندوں پر خُدا کا غضب نازِل ہوتا ہے۔

                                                                                افسیوں 5: 4-6

اصل میں دس احکام کی ان وضاحتوں میں بیرونی اعمال کو واضع طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اندرونی حالت صرف اللہ تعالیٰ ہی جان سکتا ہے۔ یہ بات اس طرح شریعت کو اور مشکل بنا دیتی ہے۔

تو اس طرح آپ اپنے جواب پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔ کہ آیا آپ سارے احکام کی اطاعت کرتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر آپ کو یقین ہو کہ آپ سارے احکام کی فرمانبرداری کررہے ہیں۔ تو پھر انجیل شریف آپ کے لیے بے معنی ہے۔ اور اس لیے اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ آپ مزید نشانات اور انجیل شریف کے بارے سمجھیں۔ کیوں کی انجیل شریف صرف اُن کے لیے ہے جو شریعت کے احکام پر مکمل طور پر عمل نہیں کر سکتے۔ یہ اُن کے لیے نہیں جو شریعت پر مکمل طور پر عمل کرتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ مسیح نے مندرجہ ذیل انداز میں اس کی وضاحت کی۔

10   اور جب وہ گھر کھانا کھانے بَیٹھا تھا تو اَیسا ہُؤا کہ بہُت سے محصُول لینے والے اور گُنہگار آ کر یِسُوع اور اُس کے شاگِردوں کے ساتھ کھانا کھانے بَیٹھے۔
11  فرِیسِیوں نے یہ دیکھ کر اُس کے شاگِردوں سے کہا تُمہارا اُستاد محصُول لینے والوں اور گُنہگاروں کے ساتھ کِیُوں کھاتا ہے۔
12  اُس نے یہ سُن کر کہا کہ تندرُستوں کو طبِیب کی ضرورت نہِیں بلکہ بِیماروں کو۔
13   مگر تُم جا کر اِس کے معنی دریافت کرو کہ مَیں قربانی نہِیں بلکہ رحم پسند کرتا ہُوں کِیُونکہ مَیں راستبازوں کو نہِیں بلکہ گُنہگاروں کو بُلانے آیا ہُوں۔

                                                                                      متی 9 :10-13

نہیں میں تمام احکامات کی فرمانبرداری نہیں کی

مجھے بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ خوشخبری نہیں ہے۔ دراصل یہ بہت بُری خبر ہے۔ کیونکہ اسکا مطلب ہے (اور یہ ہی مسلہ میرے ساتھ بھی ہے) کہ آپ راستباز نہیں ہیں۔ راستبازی بڑی اہم ہے کیونکہ یہ ہی اللہ تعالیٰ کی جنت میں جانے کی بنیاد ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ روزمرہ زندگی کے معاملات میں راستبازی ہوگی۔ (کہ نہ جھوٹ بولا جائے، نہ چوری کی جائے، نہ قتل کیا جائے، نہ بت پرستی کی جائے، اور اس طرح کے گناہ نہ کئے جایئں) اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی اور سچائی کے ساتھ عبادت کی جائے اور یہ ہمیں جنت میں لے جائے گی۔ اس لیے حضرت داود زبور شریف میں بیان کرتے ہیں کہ راستبازی جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ صرف اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں بیان ہے کہ وہ جنت میں داخل ہونگے۔

زبور 15: 1-5

1 اے خداوند تیرے خمیہ میں کون رہے گا؟

تیرے کوہ مقدس پر کون سکونت کرے گا؟

2 وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔

3 وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سنتا۔

4 وہ جس کی نظر میں رذیل آدمی حقیر ہے پر جو خدوند سے ڈرتے ہیں اُن کی عزت کرتا ہے۔ وہ جو قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اُٹھائے۔

5 وہ جو اپنا روپیہ سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھائے گا۔

تفہیم گناہ

          لیکن جب ہم (آپ اور میں) راستبازی کے کام نہیں کرتے۔ تو ہم احکام کی فرمانبرداری نہیں کر رہے ہوتے تو پھر ہم  گناہ کرتے ہیں۔ گناہ کیا ہے؟ تورات شریف کے فوراً بعد ایک آیت نے مجھے اس کو سمجھنے میں بڑی مدد دی ۔ یہ آیت اس طرح کہتی ہے۔

ان سب لوگوں میں سے سات سو چنے ہوئے بیں ہتھے جوان تھے جن میں سے ہر ایک فلاخن سے بال کے نشانہ پر بغیر خطا کئے پتھر مار سکتا تھا۔    قضاۃ 20: 16

یہ آیت بیان کرتی ہے کہ ایک فوجی وہ ہے جو فلاخن چلانے میں ماہر ہو اور اُس کا نشان کبھی خطا نہیں کھاتا ۔ تورات شریف اور پرانے عہدنامہ کو تمام انبیاء اکرام نے عبرانی میں لکھا۔ عبرانی میں لفظ “ יַחֲטִֽא ” جس کا تلفظ (pronounced Khaw-taw) جسکا ترجمہ “خطا” کیا گیا ہے۔ بالکل اسی عبرانی لفظ کا تورات شریف میں ترجمہ “گناہ” کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپر یہ یہی عبرانی لفظ “گناہ” کے طور پر استعمال ہوا۔ جب حضرت یوسف کو مصر میں غلام بنا کربیچ دیا۔ اور اُس کے آقا کی بیوی نے اُس سے بدکاری کرنے کو کہا۔ لیکن حضرت یوسف نے انکار کردیا۔ چنانچہ وہ اس سے منت کرنے لگی۔ (قرآن شریف میں بھی لکھا ہے سورۃ یوسف 12: 22-29 ) حضرت یوسف نے اُس عورت سے کہا!

           اس گھر میں مجھ سے بڑا کوئی نہیں اور اُس نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تو اس کی بیوی ہے سو بھلا میں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟                                                                                                                                                                                                                   پیدائش 39: 9

اور تورات شریف میں دس احکام کے فوراً بعد لکھا ہے۔

           موسیٰ نے لوگوں سے کہا کہ تم ڈرو مت کیونکہ خدا اس لیے آیا ہے کہ تمہارا امتحان کرےاور تم کو اُس کا خوف ہو تاکہ تم گناہ نہ کرو                خروج 20:20

ان دونوں جگہوں میں یہ ہی عبرانی لفظ “ יַחֲטִֽא ” جسکا ترجمہ “گناہ” ہے۔ یہ بالکل وہ لفظ ہے۔ جس کے بارے کہاگیا تھا۔ کہ فوجی وہ ہے جس کا نشانہ “خطا” نہیں ہوتا۔ ان آیات میں “گناہ” کا مطلب ہے۔ جب ہم لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات نمٹاتے ہیں۔ تو گناہ کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک حیرت انگیز تصویر دی ہے۔ جب ایک سپاہی فلاخن سے نشانہ لگاتا ہے۔ اور اگر وہ نشانہ خطا ہوجائے تو اُس کا مقصد ناکام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ہدف کا نشانہ بنایا ہے۔ کہ کس طرح ہم اُس کی عبادت کریں۔ اور کیسے ہم دوسروں سے رویہ رکھیں۔ “گناہ” کا مطلب نشانے کا خطا ہو جانا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے۔ یہ ہی صورت حال ہے جب ہم تمام احکامات کی پیروی نہیں کرتے اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ارادے کو اپنی زندگی میں سے (خطا) چھوڑ دیتے ہیں۔

تورات میں گناہ کا نتیجہ (موت)

          لہذا اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ہم نے پہلے حضرت آدم کی نشانی میں اس کے بارے میں ارشارہ دیکھا تھا۔ جب حضرت آدم نے اللہ تعالیٰ کی (صرف ایک بار) نافرمانی کی تو اُس کو فانی بنا دیا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اب وہ وفات پائے گا۔ یہ حضرت نوح کی نشانی میں جاری رہا اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو سیلاب کے ساتھ مارا۔ اور یہ حضرت لوط کی نشانی میں جاری رہا۔ جہاں فیصلہ دوبارہ موت ہی تھا۔ حضرت ابراہیم کے بیٹے کو بھی قربانی سے مرنا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس کی جگہ مینڈھا فراہم کردیا۔ مصر میں دسویں آفت فسح پر پہلوٹھوں کی موت کا حکم دیا گیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کوہ طور پر بات کی تو اس رحجان کو جاری رکھا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود دس احکام کو تختیوں پر لکھ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے درجہ ذیل احکام دیۓ۔

10 اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے پاس جا اور آج اور کل اُن کو پاک کر اور وہ اپنے کپڑے دھولیں۔ 11 اور تیسرے دن تیار رہیں کیونکہ خداوند تیسرے دن سب لوگوں کے دیکھتے دیکھتے کوہ سینا پر اُترے گا۔ 12 اور تو لوگوں کے لیے چاروں طعف حد باندھ کر اُن سے کہہ دینا کہ خبردار تم نہ تو اس پہاڑ پر چڑھنا اور نہ اس کے دامن کو چھونا۔ جو کوئی پہاڑ کو چھوئے ضرور جان سے مار ڈالا جائے۔

                                                                                                خروج 19: 10-12

یہ طریقہ پوری تورات میں جاری رہتا ہے۔ بعد میں بنی اسرائیل نے کُلی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی (انہوں نے گناہ کیا) کی۔ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کی مقدس ہیکل میں گے۔ یہاں اُن کی پریشانی پر غور کریں جب اپنی اس حالت کا نتیجہ دیکھا۔

12 اور بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا۔ دیکھ ہم نیست ہوئے جاتے۔ ہم ہلاک ہوئے جاتے۔ ہم سب کے سب ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ 13  جو کوئی خداوند کے مسکن کے نزدیک جاتا ہے مر جاتا ہے۔ تو کیا ہم سب کے سب نیست ہی ہوجائیں گے؟   گنتی 17: 12-13

حضرت ہارون جو حضرت موسیٰ کا بھائی تھا۔ جس کے دو بیٹے تھے۔ جو مقدس ترین مقام میں اپنے گناہ کی حالت میں داخل ہوئے اور وہاں مرگے۔

1 اور ہارون کے دو بیٹوں کی وفات کے بعد جب وہ خداوند کے نزدیک آئے اور مرگئے۔ 2 خداوند موسیٰ سے ہم کلام ہوا اور خداوند نے موسیٰ سے کہا اپنے بھائی ہارون سے کہہ کہ وہ ہر وقت پردہ کے اندر کے پاکترین مقام میں سرپوش کے پاس جو صندوق کے اوپر ہے نہ آیا کرے تاکہ وہ مرنہ جائے۔ کیونکہ میں سرپوش پر ابر میں دکھائی دوں گا۔

                                                                                                اخبار 16: 1-2

تاہم ہارون کو سیکھایا گیا تھا کہ وہ کیسے پاک ترین مقام میں داخل ہوسکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایک کاہین کے طور پر یہ ہدایت بخشی تھی۔

7 پر مذبح کی اور پردہ کے اندر کی خدمت تیرے اور تیرے بیٹوں کے ذمہ ہے۔ سو اُس کے لیے تم اپنی کہانت کی حفاظت کرنا۔ وہاں تم ہی خدمت کیا کرنا۔ کہانت کی خدمت کا شرف میں تم کو بخشتا ہوں اور جو غیر شخص نزدیک آئے وہ جان سے مار جائے۔

                                                                                                گنتی 18: 7

 اس کے بعد حضرت موسیٰ کے پاس وراثت کے معاملہ کے لیے کچھ بیٹیاں آییں۔ جن کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ سوال یہاں یہ ہے کہ اُن کا باپ کیوں مرگیا تھا۔

3 ہمارا باپ بیابان میں مرا پر وہ اُن لوگوں میں شامل نہ تھا جنہوں نے قورح کے فریق سے مل کر خداوند کے خلاف سر اُٹھایا تھا بلکہ وہ اپنے گناہ میں مرا اور اُس کے کوئی بیٹا نہ تھا۔                                                                        گنتی 27: 3

تاہم تورات شریف کے آخر میں ایک عالمگیر نمونہ دیا گیا تھا۔

16 ۔ ۔ ۔ ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔  استثنا 24: 16

اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل (اور ہمیں) کو سیکھا رہا تھا کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت

                             لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں کیا پایا جاتا ہے؟ کیا اس کا ثبوت ہمیں کہیں بھی مل سکتا ہے۔ جی ہاں یہ ہمارے لیے اہم ہے خاص کرجنہوں نے گناہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی راستبازی سے محروم ہیں۔ اب اس کو ہم اور واضح حضرت ہارون کی نشانی “ایک گائے اور دو بکریوں ” میں سیکھ سکیں گے۔

تورات شریف سے حضرت اسمعیل کے حالات

حضرت اسمعیل کے ساتھ جو ہوا اس کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ حضرت موسٰی کے وسیلے سے تورات 3500 سال پہلے لکھی گئی اور اس بات کی وضاحت میں ہماری مدد کرتی ہے۔کہ حضرت اسمعیل کی زندگی کو سمجھ سکیں ۔ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھاکہ وہ اُس کو برکت دے گا اور اُس کی نسل کو سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کردے گا۔( اس وعدہ کو یہاں پڑھیں) حضرت ابراہیم نے اپنی دونوں بیویوں سے دو بیٹوں کو حاصل پایا۔ لیکن ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا اور حضرت ابراہیم حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل کو دور بھجنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ جھگڑا دو مراحل میں واقعہ ہوا۔ پہلا واقعہ حضرت اسمعیل کی پیدائش کے بعد اور حضرت اضحاق کی پیدائش سے پہلے واقع ہو۔ براہ مہربانی یہاں پڑھیں کہ تورات شریف اسکے بارے میں کیا کہتی ہے۔ اور کیسے اللہ تعالٰی نے حضرت ہاجرہ کو  محفوظ کیا اور حضرت اسمعیل کو اپنی برکت عطا کی۔

(حضرت ہاجرہ اور حضرت اسٰمعیل (پیدایش کی کتاب 16 باب

1 اور ابرام کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اُس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔

2 اور ساری نے ابرام سے کہا دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جا شائد اُس سے میرا گھر آباد ہو اور ابرام نے ساری کی بات مانی ۔

3 ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہوگئے تھے جب اُس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اُسے دی کہ اُس کی بیوی بنے۔

4 اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوگئی تو اپنی بی بی کو حقیر جاننے لگی۔

5 تب ساری نے ابرام سے کہا کہ جو ظلم مجھ پر ہوا وہ تیری گردن پر ہے۔ میں نے اپنی لونڈی تیرے آغوش میں دی اور اب جو اُس نے آپ کو حاملہ دیکھا تو میں اُس کی نظروں میں حقیر ہوگئی۔ سو خداوند میرے اور تیرے درمیان انصاف کرے۔

6 ابرام نے ساری سے کہا کہ تیری لونڈی تیرے ہاتھ میں ہے جو تجھے بھلا دکھائی دے سو اُس کے ساتھ کر ۔ تب ساری اُس پر سختی کرنے لگی اور وہ  اُس کے پاس سے بھاگ گئ۔

7 اور وہ خداوند کے فرشتہ کو بیابان میں پانی کے ایک چشمہ کے پاس ملی ۔ یہ وہی چشمہ ہے جو شور کی راہ پر ہے۔

8 اور اُس نے کہا اے ساری کی لونڈی ہاجرہ تو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے؟ اُس نے کہا کہ میں اپنی بی بی ساری کے پاس سے بھاگ آئی ہوں۔

9 خداوند کے فرشتہ نے اُس سے کہا کہ تو اپنی بی بی کے پاس لوٹ جااور اپنے کو اُس کے قبضہ میں کردے ۔

10 اور خداوند کے فرشتہ نے اُس کے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاوں گا یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اُس کا شمار نہ ہو سکے گا۔

11 اور خداوند کے فرشتہ نے اُس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اُس کا نام اسمعیل رکھنا اس لیے کہ خداوند نے تیرا دُکھ سن لیا۔

12 وہ گورخر کی طرح آزادمرد ہوگا۔ اُس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اُس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسارہے گا۔

13 ہاجرہ نے خداوند کا جس نے اُس سے باتیں کیں اتاایل روئی نا رکھا یعنی اے خداوند تو بصیر ہے کیونکہ اُس نے کہا کیا میں نے یہاں بھی اپنے دیکھنے والے کو جاتے ہوئے دیکھا۔

14 اسی سبب سے اُس کنوئیں کا نام بیرلحی روئی پڑگیا ۔ وہ قادس اور برد کے درمیان ہے۔

15 اور ابرام سے ہاجرہ کے ایک بیٹا ہوا اور ابرام نے اپنے اُس بیٹے کا نام ہاجرہ سے پیدا ہوا اسمعیل رکھا۔

16 اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسمعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔

ہم ان آیات میں دیکھتے ہیں۔ کہ حضرت ہاجرہ ایک نبیہ تھی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بات کرتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اپنے بیٹے کا نام اسماعیل رکھنا اور اللہ تعالیٰ نے اُس سے وعدہ کیا کہ وہ اسماعیل کو شمار میں بہت بڑھا دے گا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کرنے اور وعدہ ملنے کی وجہ سے حضرت ہاجرہ اپنی مالکن کے پاس واپس آجاتی ہے اور جھگڑا تھوڑی دیر کے لیے روک جاتا ہے۔

جھگڑا دوبارہ بڑھتا ہے

لیکن جب 14 سال بعد حضرت اضحاق حضرت سارہ کے گھر پیدا ہوا تو یہ جھگڑا پھر سے شروع ہوگیا۔ ہم اس کو تورات میں پڑھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔

پیدایش 21: 8-21

8 اور وہ لڑکا بڑھا اور اُس کا دودھ چھرایا گیا اور اضحاق کے دودھ چھڑانے کے دن ابرام نے بڑی ضیافت کی ۔

9 اور سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اُس کے ابرہام سے ہوا تھا ٹھٹھے مارتا ہے۔

10 تب اُس نے ابرام سے کہا کہ اس لونڈی کو اور اُس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔

11 پر ابرہام کو اُس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بُری معلوم ہوئی۔

12 اور خدا نے ابرہام سے کہا کہ تجھے اس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث بُرا نہ لگے۔ جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تو اُس کی بات مان کیونکہ اضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔

13 اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اس لیے کہ وہ تیری نسل ہے۔

14 تب ابرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور اُسے ہاجرہ کو دیا بلکہ اُسے اُس کے کندھے پر دھر دیا اور لڑکے کو بھی اُس کے حوالہ کرکے اُسے رخصت کردیا۔ سو وہ چلی گئی اور بیرسبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی۔

15 اور جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا۔

16 اور آپ اُس کے مقابل ایک تیر کے ٹپے پر دور جا بیٹھی اور کہنے لگی کہ میں اس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں۔ سو وہ اُس کے مقابل بیٹھ گئی اور چلا چلا کر رونے لگی۔

17 اور خدا نے اُس لڑکے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارہ اور اُس سے کہا اے ہاجرہ تجھ کو کیا ہوا؟ مت ڈر کیونکہ خدا نے اُس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اُس کی آواز سن لی ہے۔

18 اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناوں گا۔

19 پھر خدا نے اُس کی آنکھیں کھولیں اور اُس نے پانی سے بھرلیا اور لڑکے کو پلایا۔

20 اور خدا اُس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا اور تیرانداز بنا۔

اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے اُس کے لیے بیوی لی۔

ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت سارہ ( اُسکا نام ساری سے سارہ میں  تبدیل ہوگیا) حضرت ہاجرہ کے ساتھ ایک گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اور اُس نے مطالبہ کیا کے حضرت ہاجرہ کو دور بھیج دیا جائے۔ حضرت ابراہیم کے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا کہ وہ حضرت ہاجرہ کو اور حضرت اسمعیل کو برکت دے گا۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے حضرت ہاجرہ پر ظاہر پر ہوا اور اُس نے اُسکی آنکھیں کھولیں تاکہ بیابان میں پانی کو دیکھ سکے اور وعدہ کیا کہ وہ اسمعیل کو بڑی قوم بنائے گا۔ تورات شریف ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے یہ قوم نے ترقی کرنا شروع کردی۔ ہم حضرت اسمعیل کے بارے میں حضرت ابراہیم کی وفات کے وقت پڑھتے ہیں۔

پیدایش 25: 8-18

8 تب ابرہام نے دم چھوڑ دیا اور خوب بڑھاپے میں نہایت ضعیف اور پوری عمر کا ہوکر وفات پائی اور اپنے لوگوں میں جاملا۔

9 اور اُس کے بیٹے اضحاق اور اسمعیل نے مکفیلہ کے غار میں جو ممرے کے سامنے جتی صحر کے بیٹے عفرون کے کھیت میں ہے دفن کیا۔

10 یہ وہی کھیت ہے جسے ابرہام نے بنی جت سے خریدا تھا۔ وہیں ابرہام اور اُس کی بیوی سارہ دفن ہوئے۔

11 اور ابرہام کی وفات کے بعد خدا نے اُس کے بیٹے اضحاق کو برکت بخشی اور اضحاق بیرلحی روئی کے نزدیک رہتا تھا۔

12 یہ نسب نامہ ابرہام کے بیٹے اسمعیل کا ہے جو ابرہام سے سارہ کی لونڈی ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا۔

13 اور اسمعیل کے بیٹوں کے نام یہ ہیں۔ یہ نام ترتیب وار ان کی پیدایش کے مطابق ہیں۔ اسمعیل کا پہلوٹھا نبایوت تھا۔ پھر قیدار اور اوبئیل اور میسام ۔

14 اور مشماع اور دومہ اور مسا۔

15 حدد اور تیما اور یطور اور نفیس اور قدمہ

16 یہ اسمعیل کے بیٹے ہیں اور ان ہی کے ناموں سے ان کی بستیاں اور چھاونیاں نامزد ہوئیں اور یہی بارہ اپنے اپنے قبیلہ کے سردار ہوئے۔

17 اور اسمعیل کی کل عمر ایک سو سینتیس برس کی ہوئی تب اُس نے دم چھوڑ دیا اور وفات پائی اور اپنے لوگوں میں جاملا۔

18 اور اُس کی اولاد حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے اُس راستہ پر ہے جس سے اسور کو جاتے ہیں آباد تھی۔ یہ لوگ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسے ہوئے تھے۔

ہم نے دیکھا کہ حضرت اسمعیل  نے لمبے عرصہ زندگی گذاری اور اُس کے بیٹوں نے بارہ قبیلعے بنائے۔ اللہ تعالٰی نے اُس کو برکت دی جسکا اُس نے وعدہ کیا تھا۔