Skip to content
Home » وہ خاص دن : ال – قا رعہ اور ات – تکا ثر اور ال مسیح

وہ خاص دن : ال – قا رعہ اور ات – تکا ثر اور ال مسیح

سورہ ال – قارعہ (سورہ 101 –آفت بیان کرتا ہے کہ آنے والا انصاف کا دن ایسا ہوگا :

 وہ کھڑکھڑ ا نے والی کیا ہے اور تمکو کیا معلوم کہ وہ کھڑکھڑا نے والی کیا چیز ہے – وہ قیامت کا دن ہے جس د ن لوگ ٹڈ ڈ یوں کی طرح پھیلے ہونگے اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کے سے ہو جاینگے تو جسکے (میدان حشر میں) نیک اعمال کے پللے بھاری ہونگے وہ من بھاتے عیش میں ہونگے اور جنکے نیک اعمال کے پللے ہلکے ہونگے تو انکا ٹھکانہ  نہ رہا –    

101:2-9سورہ ال – قارعہ

سورہ ال – قار عہ ہم سے کہتا ہے قیامت کے دن جن کے نیک اعمال کا پلڈا بھاری ہوگا انہی کے لئے دوزخ کی آگ سے بچنے کی امید کی جا سکتی ہے –

مگر انکا کیا حال ہوگا جن کے نیک اعمال کا پلڈا ہلکا ہوگا ؟

سورہ ات – تکا ثر (سورہ  2 0 1 – د نیامیں رقابت بڑھتی جاتی ہے ) ہمکو خبردار کرتا ہے –  

 تو مال کی بہت سی طلب اور بہتایت نے تم لوگوں کو غافل کر رکھا یہاں تک کہ تم لوگوں نے قبریں دیکیھی (مر گئے) دیکھو تمکو عنقریب ہی معلوم ہو جاےگا – دیکھو اگر تمکو یقینی طور سے معلوم ہوجاتا تو (تم ہرگز غافل  نہ  ہوتے) تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکھوگے  پھر تم لوگ یقینی طور سے دیکھوگے – پھر تم سے  نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پرس کی جایگی –    

102:1-8سورہ ات – تکا ثر

سورہ ات – تکا ثر ہمسے کہتا ہے کہ انصاف کے دن جہنّم کی آگ ہمکو دھمکاتی ہے جب ہم سوالوں کے گھیرے میں ہو یینگے –

کیا ہم اس دن کی تییاری کر سکتے ہیں جب ہمارے نیک اعمال کا بلدا بھاری ہوگا ؟

نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح خاص طور سے انکی مدد کرنے آے  جن کے نیک اعمال کا پلڈا اس دن سچ مچ میں ہلکا ہوگا-انہوں نے انجیل شریف میں کہا کہ :

 

(35)یِسُو ع نے اُن سے کہا زِندگی کی روٹی مَیں ہُوں ۔ جو میرے پاس آئے وہ ہرگِز بُھوکا نہ ہو گا اور جو مُجھ پر اِیمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔
(36)لیکن مَیں نے تُم سے کہا کہ تُم نے مُجھے دیکھ لِیا ہے ۔ پِھر بھی اِیمان نہیں لاتے۔
(37)جو کُچھ باپ مُجھے دیتا ہے میرے پاس آ جائے گا اور جو کوئی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگِز نِکال نہ دُوں گا۔
(38)کیونکہ مَیں آسمان سے اِس لِئے نہیں اُترا ہُوں کہ اپنی مرضی کے مَوافِق عمل کرُوں بلکہ اِس لِئے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے مُوافِق عمل کرُوں۔
(39)اور میرے بھیجنے والے کی مرضی یہ ہے کہ جو کُچھ اُس نے مُجھے دِیا ہے مَیں اُس میں سے کُچھ کھو نہ دُوں بلکہ اُسے آخِری دِن پِھر زِندہ کرُوں۔
(40)کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہ ہے کہ جو کوئی بیٹے کو دیکھے اور اُس پر اِیمان لائے ہمیشہ کی زِندگی پائے اور مَیں اُسے آخِری دِن پِھر زِندہ کرُوں۔
(41)پس یہُودی اُس پر بُڑبُڑانے لگے ۔ اِس لِئے کہ اُس نے کہا تھا کہ جو روٹی آسمان سے اُتری وہ مَیں ہُوں۔
(42)اور اُنہوں نے کہا کیا یہ یُوسف کا بیٹا یِسُو ع نہیں جِس کے باپ اور ماں کو ہم جانتے ہیں؟ اب یہ کیوں کر کہتا ہے کہ مَیں آسمان سے اُترا ہُوں؟۔
(43)یِسُو ع نے جواب میں اُن سے کہا آپس میں نہ بُڑبُڑاؤ۔
(44)کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جِس نے مُجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے اور مَیں اُسے آخِری دِن پِھر زِندہ کرُوں گا۔
(45)نبِیوں کے صحِیفوں میں یہ لِکھا ہے کہ وہ سب خُدا سے تعلِیم یافتہ ہوں گے ۔ جِس کِسی نے باپ سے سُنا اور سِیکھا ہے وہ میرے پاس آتا ہے۔
(46)یہ نہیں کہ کِسی نے باپ کو دیکھا ہے مگر جو خُدا کی طرف سے ہے اُسی نے باپ کو دیکھا ہے۔
(47)مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو اِیمان لاتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے۔
(48)زِندگی کی روٹی مَیں ہُوں۔
(49)تُمہارے باپ دادا نے بیابان میں مَنّ کھایا اور مَر گئے۔
(50)یہ وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُترتی ہے تاکہ آدمی اُس میں سے کھائے اور نہ مَرے۔
(51)مَیں ہُوں وہ زِندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری ۔ اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے تو ابد تک زِندہ رہے گا بلکہ جو روٹی مَیں جہان کی زِندگی کے لِئے دُوں گا وہ میرا گوشت ہے۔

6:35-51یوحننا

نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح نے دعوی کیا کہ وہ آسمان سے نیچے آئے اور یہ کہ جو انپر ایمان لاتے ہیں انھیں ہمیشہ کی زندگی عطا کرتے ہیں – یہودی لوگ جو انکی باتوں کو سن رہے تھے انہوں نے ان سے اس بات کے لئے ثبوت مانگے –نبی نے انسے پہلے کے نبیوں کا حوالہ پیش کیا جو انکے آنے اور انکے اختیار کی بابت نبوت کی تھی – ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح موسیٰ کی تورات نے انکے آنے کی پیش بینی کی اور حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے نبیوں نے بھی – مگر اسکا کیا مطلب ہے کہ ‘جو اسپر ایمان لاۓ’  ؟ اسکو ہم یہاں دیکھتے ہیں –

نبی حضرت عیسیٰ ال مسیح نے بھی بیماروں کو شفا دینے کی ،اور قدرت پر اختیار رکھنے کی نشانیو ں  کے زریعے اپنے شخصی اختیار کا اظہار کیا – انہوں نے اس بات کو اپنی تعلیم کے دوران سمجھایا –

(14)اور جب عِید کے آدھے دِن گُزر گئے تو یِسُو ع ہَیکل میں جا کر تعلِیم دینے لگا۔
(15)پس یہُودِیوں نے تعجُّب کر کے کہا کہ اِس کو بغَیر پڑھے کیوں کر عِلم آ گیا؟۔
(16)یِسُوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ میری تعلِیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔
(17)اگر کوئی اُس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اِس تعلِیم کی بابت جان جائے گا کہ خُدا کی طرف سے ہے یا مَیں اپنی طرف سے کہتا ہُوں۔
(18)جو اپنی طرف سے کُچھ کہتا ہے وہ اپنی عِزّت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عِزّت چاہتا ہے وہ سچّا ہے اور اُس میں ناراستی نہیں۔
(19)کیا مُوسیٰ نے تُمہیں شرِیعت نہیں دی؟ تَو بھی تُم میں سے شرِیعت پر کوئی عمل نہیں کرتا ۔ تُم کیوں میرے قتل کی کوشِش میں ہو؟۔
(20)لوگوں نے جواب دِیا تُجھ میں تو بدرُوح ہے ۔ کَون تیرے قتل کی کوشِش میں ہے؟۔
(21)یِسُو ع نے جواب میں اُن سے کہا مَیں نے ایک کام کِیا اور تُم سب تعجُّب کرتے ہو۔
(22)اِس سبب سے مُوسیٰ نے تُمہیں خَتنہ کا حُکم دِیا ہے(حالانکہ وہ مُوسیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ باپ دادا سے چلا آیا ہے)اور تُم سَبت کے دِن آدمی کا خَتنہ کرتے ہو۔
(23)جب سَبت کو آدمی کا خَتنہ کِیا جاتا تاکہ مُوسیٰ کی شرِیعت کا حُکم نہ ٹُوٹے تو کیا مُجھ سے اِس لِئے ناراض ہو کہ مَیں نے سَبت کے دِن ایک آدمی کو بِالکُل تندرُست کر دِیا؟۔
(24)ظاہِر کے مَوافِق فَیصلہ نہ کرو بلکہ اِنصاف سے فَیصلہ کرو۔
(25)تب بعض یروشلِیمی کہنے لگے کیا یہ وُہی نہیں جِس کے قتل کی کوشِش ہو رہی ہے؟۔
(26)لیکن دیکھو یہ صاف صاف کہتا ہے اور وہ اِس سے کُچھ نہیں کہتے ۔ کیا ہو سکتا ہے کہ سرداروں نے سچ جان لِیا کہ مسِیح یِہی ہے؟۔
(27)اِس کو تو ہم جانتے ہیں کہ کہاں کا ہے مگر مسِیح جب آئے گا تو کوئی نہ جانے گا کہ وہ کہاں کا ہے۔
(28)پس یِسُوع نے ہَیکل میں تعلِیم دیتے وقت پُکار کر کہا کہ تُم مُجھے بھی جانتے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ مَیں کہاں کا ہُوں اور مَیں آپ سے نہیں آیا مگر جِس نے مُجھے بھیجا ہے وہ سچّا ہے ۔ اُس کو تُم نہیں جانتے۔
(29)مَیں اُسے جانتا ہُوں اِس لِئے کہ مَیں اُس کی طرف سے ہُوں اور اُسی نے مُجھے بھیجا ہے۔
(30)پس وہ اُسے پکڑنے کی کوشِش کرنے لگے لیکن اِس لِئے کہ اُس کاوقت ابھی نہ آیا تھا کِسی نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا۔
(31)مگر بِھیڑ میں سے بُہتیرے اُس پر اِیمان لائے اور کہنے لگے کہ مسِیح جب آئے گا تو کیا اِن سے زِیادہ مُعجِزے دِکھائے گا جو اِس نے دِکھائے؟۔
(32)فرِیسِیوں نے لوگوں کو سُنا کہ اُس کی بابت چُپکے چُپکے یہ گُفتگُو کرتے ہیں ۔ پس سردار کاہِنوں اور فرِیسِیوں نے اُسے پکڑنے کو پیادے بھیجے۔
(33)یِسُو ع نے کہا مَیں اَور تھوڑے دِنوں تک تُمہارے پاس ہُوں ۔ پِھر اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا جاؤں گا۔
(34)تُم مُجھے ڈُھونڈو گے مگر نہ پاؤ گے اور جہاں مَیں ہُوں تُم نہیں آ سکتے۔
(35)یہُودِیوں نے آپس میں کہا یہ کہاں جائے گا کہ ہم اِسے نہ پائیں گے؟ کیا اُن کے پاس جائے گا جو یُونانِیوں میں جابجا رہتے ہیں اور یُونانِیوں کو تعلِیم دے گا؟۔
(36)یہ کیا بات ہے جو اُس نے کہی کہ تُم مُجھے ڈُھونڈو گے مگر نہ پاؤ گے اور جہاں مَیں ہُوں تُم نہیں آ سکتے؟۔
(37)پِھر عِید کے آخِری دِن جو خاص دِن ہے یِسُو ع کھڑا ہُؤا اور پُکار کر کہا اگر کوئی پِیاسا ہو تو میرے پاس آ کر پِئے۔
(38)جو مُجھ پر اِیمان لائے گا اُس کے اندر سے جَیساکہ کِتابِ مُقدّس میں آیا ہے زِندگی کے پانی کی ندِیاں جاری ہوں گی۔
(39)اُس نے یہ بات اُس رُوح کی بابت کہی جِسے وہ پانے کو تھے جو اُس پر اِیمان لائے کیونکہ رُوح اب تک نازِل نہ ہُؤا تھا اِس لِئے کہ یِسُو ع ابھی اپنے جلال کو نہ پُہنچا تھا۔
(40)پس بِھیڑ میں سے بعض نے یہ باتیں سُن کر کہا بیشک یِہی وہ نبی ہے۔
(41)اَوروں نے کہا یہ مسِیح ہے اور بعض نے کہا کیوں؟ کیا مسِیح گلِیل سے آئے گا؟۔
(42)کیا کِتابِ مُقدّس میں یہ نہیں آیا کہ مسِیح داؤُد کی نسل اور بَیت لحم کے گاؤں سے آئے گا جہاں کا داؤُد تھا؟۔
(43)پس لوگوں میں اُس کے سبب سے اِختلاف ہُؤا۔
(44)اور اُن میں سے بعض اُس کو پکڑنا چاہتے تھے مگر کِسی نے اُس پر ہاتھ نہ ڈالا۔

7:14-44یوحننا

یوحننا جس زندگی کے پانی کے لئے انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ روح ال قدوس ہے جو پنتیکست کے دن رسولوں پر نازل ہوا تھا اور اب وہ ہمیں زندگی مفت میں بخشتا ہے جو ہمکو انصاف کے دن کی موت سے اور جہنّم کی آگ سے بچاے گا –اس کے لئے ہمیں صرف اپنی پیاس کو پہچاننے کی ضرورت ہے –  

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *